سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں مونال ریسٹورینٹ کو سیل کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ نے مونال ریسٹورینٹ سیل کرنے کا دستخط شدہ حکم نامہ جاری کیا؟
اس پرمونال کے وکیل نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے مختصر حکم کی تصدیق شدہ کاپی دستیاب ہے نا تفصیلی فیصلہ، انٹراکورٹ اپیل دو مرتبہ مقرر ہوئی لیکن سماعت سے قبل ہی کیس منسوخ ہوگیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ تحریری عدالتی حکم سے پہلے ہی ریسٹورینٹ سیل کیسے کیا گیا؟ وائلڈ لائف بورڈ تو فریق ہی نہیں تھا پھر سیل کرنے میں پھُرتی کیوں دکھائی؟ مارگلہ ہلز پر آج تک کتنے ریسٹورنٹ سیل کیے گئے ہیں؟
سپریم کورٹ نے دوران سماعت چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا احمد کی سرزنش کی اور بار بار مداخلت پر روسٹم سے ہٹا دیا۔
عدالت نے کہا کہ اصولی طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا کوئی حکم موجود نہیں اور زبانی حکم کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہوتی، ہائیکورٹ نے مونال ریسٹورینٹ کو سیل کرنے کا حکم نامہ جاری نہیں کیا، اسے بغیر نوٹس کے مجسٹریٹ نے سیل کردیا جب کہ مونال ریسٹورینٹ کے ساتھ موجود دوسرے ریسٹورینٹس کو سیل کرنے سے قبل نوٹس دیا گیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے مونال ریسٹورینٹ سیل کرنے کا حکم معطل کرتے ہوئے اسے ڈی سیل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے قانونی پہلو معلوم نہیں۔
واضح رہےکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس حوالے سے جنوری میں فیصلہ سنایا تھا جس میں عداالت نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا نیشنل پارک کی 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ غیرقانونی قرار دیا تھا اور قرار دیا کہ 8 ہزار ایکڑ اراضی نیشنل پارک کا ایریا وفاقی حکومت کی ملکیت سمجھی جائے۔
عدالت نے سی ڈی اے کو نیوی گالف کورس کا قبضہ لینے اور مونال کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا تھا کہ نیوی گالف کورس کی تجاوزات کرنے والوں کےخلاف کارروائی کی جائے