پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی غالب اکثریت کی خواہش ہے کہ انہیں اپنی وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی حمایت کے عوض آئندہ الیکشن میں ن لیگ کے ٹکٹ کی تسلی بخش یقین دہانی مل جائے لیکن ایسے اراکین بھی موجود ہیں جو اپنے سیاسی ماضی کی وجہ سے ن لیگ میں نہیں جا سکتے یا یہ کہ ان کے حلقوں میں ن لیگ کے ایسے چہرے موجود ہیں جنہیں ن لیگ کسی صورت میں بھی قربان نہیں کر سکتی۔ اسی وجہ سے ن لیگ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ جہانگیر ترین یا عبد العلیم خان ن لیگ کے ٹکٹ کے وعدے پر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو اپنی اپنی چھتری کے نیچے اکٹھا کر لیں لیکن واردات کے اندر واردات موجود ہے۔
عبدالعلیم خان میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اگر وہ کم بیش چالیس پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کو ساتھ ملا کر جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ مل جائیں تو ق لیگ ہر طرح سے گیم سے باہر ہو جائے گی اور ن لیگ بھی عبد العلیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے پر مجبور ہو جائے گی۔ دوسری طرف انہیں یہ بھی اطلاع تھی کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی صلح صفائی والی ملاقات میں عمران خان نے پنجاب میں نیا وزیراعلیٰ لانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے لیکن اس بات کا عبد العلیم خان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہر دو فریقین نے بطور عبد العلیم خان کے نام کو نامنظور کیا ہے۔
خفیہ اجلاس میں شامل کل دس ارکان میں سے صرف تین نے مستقبل میں ن لیگ کے ٹکٹ کی شرط پر عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ بقیہ تمام اراکین کو ایجنڈا بتائے بغیر صرف فون کر کے بلایا گیا تھا۔ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے نے عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دینے سے صاف انکار کیا اور اٹھ کر چلے گئے۔ وہاڑی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے اور ایک صوبائی وزیر کے چھوٹے بھائی (جو خود بھی پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں) نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ بقیہ اراکین اسمبلی نے بھی صرف باتیں سنیں اور اپنی کوئی بھی رائے دینے سے احتراز کیا اور اس طرح یہ اجلاس برخواست ہو گیا۔
اس خفیہ اجلاس کے بعد عبد العلیم خان جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پہنچے اور چالیس اراکین اسمبلی کی حمایت کے دعوے سے میلہ لوٹنے کی کوشش کی لیکن صوبائی وزیر آصف نکئی بھی وہاں پہنچ گئے کیونکہ یہ اطلاع آ چکی تھی کہ عمران خان عثمان بزدار کی قربانی پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سردار آصف نکئی کی وجہ سے ن لیگ کے ٹکٹ کے وعدے پر دراصل صرف تین اراکین اسمبلی کی حمایت رکھنے والے عبد العلیم خان کی دال نہ گل سکی اور ان کے چالیس اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے دعوے کے باوجود انہیں ترین گروپ کی طرف سے وزیر اعلیٰ کا امیدوار نہ بنایا جا سکا۔
اس مشترکہ گروپ پر تب یہ انکشاف ہوا کہ ن لیگ صرف ترین علیم خان گروپ پر اکتفا نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنے طور پر تقریباً پندرہ اراکین کی حمایت حاصل کر چکی ہے۔ یعنی ایک اور گروپ بھی وجود میں آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے بیس اراکین پر مشتمل آزاد گروپ بہت پہلے سے موجود ہے۔ رات گئے تین صوبائی وزرا نے اپنی ایک بیٹھک منعقد کی اور علیحدہ سے ایک اور گروپ بنانے پر اتفاق کیا۔ یہ گروپ سرمایہ دار گروہوں کے برعکس پرانے سیاسی گھرانوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ کسی طرح بھی ن لیگ میں نہیں جا سکتے بلکہ مستقبل میں ان کا انتخاب پیپلز پارٹی ہو سکتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس گروپ کی ترجیح یہ ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی صلح ہو جائے اور نیا وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی کے اندر سے ہی لایا جائے جب کہ دوسری صورت میں بھی فوری نئے انتخابات کی طرف جانے کی بجائے ن لیگ کو بھی ساتھ ملا کر اسی گروپ میں سے امیدوار لایا جائے۔
اس گروپ کے ایک رکن کے گھر پہلے بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ موجود رہی ہے اور انہیں ایک طاقتور کاروباری شخصیت کی جانب سے یہ تسلی دی گئی ہے کہ پچاس کروڑ سے ایک ارب روپے کے خرچ سے طے شدہ سیاسی معاملات کو بدلا جا سکتا ہے اور انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس گروپ کا فیصلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر کسی کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے اکٹھا کر سکے اس لئے انہیں طاقتور کاروباری شخصیت کا مشورہ بھی پسند آیا ہے اور انہی بنیادوں پر یہ دوڑ دھوپ شروع ہو چکی ہے کہ بے شک مائنس عمران خان ہو جائے لیکن اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی صلح ہونی چاہیے۔
اس گروپ کے بقول ان کے امیدوار برائے وزیر اعلیٰ کے نام پر مقتدر حلقوں نے بھی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عثمان بزدار کا بلوچ گروپ ان تمام حالات میں کیا رنگ دکھاتا ہے۔