4 مارچ 2023 کو سید ہاشمی کی پینتالیسویں برسی کی مناسبت سے میں اور ایڈوکیٹ آصف داد بلوچی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم "گْوادر ءِ توار" کے لیے یہ جگہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔ بلوچی زبان کے نامور ادیب اور استاد ڈاکٹر اے آر داد نے سید ہاشمی کے کھنڈر نما اس گھر کا دورہ کیا اور اپنے تاثرات بْیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی حال ہی میں پتہ لگا ہے کہ سید ہاشمی کا گھر یہ تھا جہاں اُن کی بہت ساری نشانیاں، کتابیں اور ڈائریاں بھی موجود تھیں لیکن انھیں نامعلوم لوگ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بحیثیت قوم ابتداء بھی ماتم سے ہوتی ہے اور انتہا بھی۔
گْوادر کے اندرون شہر شاہی بازار کے ساتھ وشدل محلہ میں واقع اس کھنڈر کے بارے میں عام شہری تو دور اہل قلم میں سے بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ آثار سید ہاشمی کے گھر کے ہیں جو بجائے کسی میوزم کے اب ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ گْوادر میں ادارہ ترقیات نے عمانی اور انگریز ادوار کے کئی مقامات کی بحالی اور تحفظ کے لیے کام کا آغاز بھی کیا ہے لیکن بلوچی زبان کے جھدکار سید ہاشمی کی یادوں کو محفوظ کرنے کی طرف بے دھیانی رہی۔ گْوادر کے سماجی کارکن ناصر رحیم سہرابی سید ہاشمی اور عمانی دور کے متعلق گدان ٹی وی کو انٹریو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سید ہاشمی سمیت گْوادر کے چند دوسرے سرگرم سْیاسی اور ادبی نوجْوانوں سے اُس دور کے مقامی لوگ ان سے ناخوش تھے اور انھوں نے انکی ادبی اور سْیاسی سرگرمیوں سے متعلق عمان کے ولی عہد سے شکایت کی تھی، جس کے بعد ان نوجْوانوں کو گرفتار کرکے گْوادر سے مسقط منتقل کیا گیا تھا مگر وہاں سلطان سے گفتگو کے بعد سلطان نے ان کے مطالبات کو تسلیم کیا تھا اور گْوادر میں پہلا پرائمری اسکول قائم کیا تھا۔
سید ہاشمی سمیت دوسرے چند نوجْوان انجمن اصلاح بلوچاں نامی تنظیم سے وابسطہ تھے۔ گْوادر کے سینئر صحافی اسماعیل بلوچ کے مطابق یہ نوجْوان اس وقت گْوادر کے چند پہلے تعلیم یافتہ نوجْوان تھے جنھوں نے متحدہ ہندوستان کے کئی دوسرے بڑے شہروں کو دیکھا تھا جن میں کراچی، بمبئی اور لاہور وغیرہ شامل تھے۔ یہ نوجْوان وہاں کی ترقی، سْیاسی اور ادبی سرگرمیوں سے متاثر ہوئے تھے اور گْوادر میں آکر انہوں نے بھی اسی طرح کی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ ان سرگرمیوں سے سلطان کے وفادار ماتحت اور میر ناخوش تھے اور خود کو غیرمحفوظ سمجھتے تھے اسی لیے انھوں نے سلطان سے ان نوجْوانوں کی شکایت کی تھی۔ سید ہاشمی سمیت کئی نوجْوان سلطان کے دور میں کئی دفعہ گْوادر سے جلاوطن بھی ہوئے تھے۔
اسماعیل بلوچ کے مطابق پاکستان بننے کے بعد جب حکومت برطانیہ یہاں سے چلی گئی تو مقامی کھدہ اور میروں نے بھی اپنی وفاداریاں سلطان کی بجائے پاکستان کے ساتھ شروع کردیں۔ اسی لیے ان ادبی اور سْیاسی لوگوں کے لیے دوبارہ بندشیں مزید سخت تر ہوگئیں اور سید ہاشمی گْوادر کی بجائے کبھی خلیجی ممالک اور آخر میں کراچی میں رہے۔
سید ہاشمی کے اس کھنڈر نما گھر کے چند قدم کے فاصلے پر اسماعیلی کمیونٹی کا قدیم جماعت خانہ ہے جو آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے لیکن بقول اے آر داد صاحب کے چونکہ ان کے مقامات کو سنبھالنے والے لوگ تھے ہمارے لوگ بے سُدھ ہیں۔ گْوادر ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر سوسائٹی کے عارف نور کے مطابق اسی گھر کے ساتھ ہی انجمن اصلاح بلوچاں کا بھی دفتر تھا جو اب بالکل سید ہاشمی کے گھر کی طرح کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اے آر داد کے مطابق انجمن اصلاح بلوچاں کی دفتر سے متعلق ان کے پاس کوئی معلومات نہیں لیکن چونکہ اس وقت کا شہر اور مصروف ترین علاقہ یہی تھا تو ممکن ہے کہ انجمن اصلاح بلوچاں کا دفتر بھی یہیں کہیں ہوگا۔
سید ظہور شاہ ہاشمی 21 اپریل 1926 کو گْوادر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بلوچی زبان کے پہلے ناول نگار اور بلوچی رسم الخط کے بانی ہیں (گوہ ابھی تک بلوچی کے تمام لہجوں کا اس رسم الخط پر اتفاق نہیں ہے). سید نے اپنی زندگی میں تیئس سال تک جدوجہد کرکے بلوچی زبان کے الفاظ جمع کیے اور پہلی بلوچی ڈکشنری سید گنج مکمل کی۔ سید ہاشمی نے بلوچی زبان میں تقریباً پندرہ کتابیں لکھی ہیں۔ وہ 4 مارچ 1978 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
سید ہاشمی کے گھر کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کئی سوشل میڈیا صارفین گْوادر کے انتظامیہ اور بااثر نمائندوں سے سید ہاشمی کی یادوں کی حفاظت نہ کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ زاہد کریم رئیس لکھتے ہیں کہ "افسوس ہے سید کے ماننے والوں پر کہ ان کی آخری نشانیاں کھنڈرات بن چکی ہیں، وہ سید جس نے طویل سفر کرکے مَنْد میں جاکر بلوچی کے کلاسیکل شاعر مُلا فاضل کی قبر کو دریافت کیا۔ لیکن آج ان کی یادیں ویرانے میں بدل گئیں"۔ ایک اور صارف مقبول انور لکھتے ہیں کہ "یہ مقام ایک تاریخ ہے اسے ایک ویران قبرستان نہیں ہونا چاہیے تھا"۔
محکمہ ترقی گْوادر اور حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ سید ہاشمی کے گھر کو دوبارہ اصل حالت میں تعمیر و بحال کرکے اسے ایک میوزیم کا درجہ دیا جائے ورنہ آنے والے چند مہینوں کے بعد یہ پتھر اور ملبے کا ڈھیر بھی گْوادر کی تیز رفتار ترقی کے نیچے ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔