ریاست جموں کشمیر، جو کہ 84,471 مربع میل کے علاقے پر پھیلی ہوئی تھی، اسے بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ اس وقت ریاست کا حکمران تھا، اس کا ریاست کو اندرونی طور پر خودمختار رکھنے کا ارادہ تھا۔ مہاراجہ نے بھارت اور پاکستان کے ساتھ معاہدہ امتناع (Stand Still Agreement) کرنے کی کوشش کی جسے پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم نے فوراً قبول کر لیا جب کہ بھارت کے مستقبل کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اس پر مزید بحث کرنے کا مطالبہ کیا۔
ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے ابھی بات چیت ہو ہی رہی تھی کہ پاکستانی قبائیلیوں نے فوج کی مدد سے 22 اکتوبر1947 کو ریاست پر حملہ کر دیا اور سردار ابراہیم کو کشمیر کا صدر مقرر ہونے کی خوشخبری سنائی۔ سردار ابراہیم مسلم کانفرس سے منسلک تھے، ان کی پاکستانی حکومت سے وفاداری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ 24 اکتوبر کو آزاد کشمیر کی حکومت کا قیام پلندری کے مقام پرعمل میں آیا جو آج کل ضلع صدھنوتی کا حصہ ہے۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے گلگت بلتستان کے انتظامی امور سنبھالنے کے لیے جب گندھارا سنگھ کو بھیجا تو وہاں کے چند لوگوں نے جنرل برائون کے ساتھ مل کر اعلانِ بغاوت کر دیا۔ اس بغاوت میں وہاں کے باسیوں کا عمل دخل بہت کم تھا۔ اس بغاوت کے سرخیل مرزا حسن خان تھے۔ یکم نومبر 1947 کو وہاں کے لوگوں نے جنرل برائون اور مرزا حسن خان کی قیادت میں گندھارا سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ اس دن گلگت بلتستان کی عوام یومِ آزادی مناتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات دانستہ طور پر ڈال دی گئی کہ ہم نے مہاراجہ کے چنگل سے آزادی حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا ہے جب کہ حقیقت میں یہ جنگ وہاں کے لوگوں نے مہاراجہ سے آزادی کی خاطر لڑی تھی اور اس کا مقصد پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہرگز نہیں تھا۔ اس تناظر میں مرزا حسن خان اور جنرل برائون کے کردار کے حوالے سے بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
مسلئہ کشمیر پر پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو بھارت یکم جنوری 1948 کو مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں لے گیا جس نے مہاراجہ کی پوری ریاست جس میں گلگت بلتستان بھی شامل تھا، اسے متنازع قرار دے دیا۔ انہی وجوہ کے باعث گلگت بلتستان کو ایک بار پھر ریاست جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے ساتھ نتھی ہونا پڑا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کے ذہنوں میں اسی وقت ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے بددلی پیدا ہو گئی کیوں کہ انہیں اس بات پر مطمئن کیا گیا تھا کہ وہ یکم نومبر کو آزاد ہو گئے ہیں بلکہ یکم نومبر کو یوم آزادی آج تک منایا جاتا ہے لیکن درحقیقت چند قوتیں اپنے مفادات کے لیے یہ کھیل رچا رہی تھی اور جنرل برائون اور مرزا حسن خان محض ایک مہرہ تھے۔
بعدازاں اسی گلگت بلتستان اور کشمیر کے درمیان کراچی معاہدہ کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ معاہدہ حکومتِ پاکستان، ریاست جموں و کشمیر اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے کیا جن کی نمائندگی بالترتیب ایم اے گورمانی (وزیرِ بے محکمہ)، سردار محمد ابراہیم خان (صدر آزاد کشمیر) اور چودھری غلام عباس (صدر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس) نے کی۔ یہ معاہدہ ناصرف پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان ہوا بلکہ آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس بھی اس میں حصہ دار تھی۔
اس معاہدے میں آزاد کشمیر نے اپنے تمام تر اختیارات پاکستان کے حوالے کر دیے۔ اس کا فائدہ اس وقت کی حکمران جماعت کو حاصل ہوا جنہیں ایک طویل عرصہ کے لیے اقتدار تحفتاً دے دیا گیا جب کہ ریاست کی حکومت کو ہمیشہ کے لیے بے بس اور کمزور کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر حکومت نے پاکستان کو دفاعی امور، کرنسی، خارجہ پالیسی، اقوامِ متحدہ سے مذاکرات اور سب سے اہم گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے چلانے کے اختیارات سونپ دیے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان، جو آزاد کشمیر سے چھ گنا بڑا ہے، اس کے مستقبل کا فیصلہ اس کی منشا کے بغیر کس طرح کیا گیا؟ گلگت بلتستان سے کوئی نمائندگی کیوں نہیں تھی؟
یہ معاہدہ نہ تو کشمیری عوام کی ترجمانی کرتا ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے حقوق کا ضامن ہے بلکہ اپنی طاقت اور حکومت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے مفاد پرست ٹولے کا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے بعد گلگت بلتستان پر ایف سی آر کا نفاذ عمل میں لایا گیا گیا جو انگریز دور کا ایک اور سیاہ قانون تھا۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کو ساٹھ سال تک نہ تو ووٹ کا حق دیا گیا نہ ہی برابر کا شہری تسلیم کیا گیا لیکن گلگت بلتستان کے وسائل کو حکومتِ پاکستان نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اس خطے میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی کی گئی، اس کے ذمہ دار بھی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی دھرتی کے ساتھ غداری کرتے ہوئے اسے ایک کالونی میں تبدیل کر دیا۔
کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی جنگ سانجھی ہے۔ اُن کا دشمن ایک ہے۔ اس بات کو دونوں خطوں کے عوام کو سمجھنا ہو گا اور جن لوگوں نے ظلم و ستم کے باب رقم کیے، انہیں بغیر کسی حجت کے ببانگ دہل ظالم اور غدار کہا جائے۔ تب ہی گلگت بلتستان اور کشمیر میں بسنے والے لوگوں کے دلوں میں سے کدورتوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ناراضی بالکل بجا ہے لیکن ایک بات انہیں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری جنگ ایک ہے، چاہے ہماری منزل مختلف ہو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک میز پر بیٹھیں اور آپس کے مسائل حل کرنے کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں۔