اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہدایت کی ہے کہ سیٹلائیٹ چینلوں کے لیے لائسنسوں کے اجرا کے معاملے کو پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں پر حتمی فیصلے سے منسلک کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس حوالے سے وزارت اطلاعات کو نوٹس بھجوا دیا ہے اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) سے 22 مئی تک جواب طلب کر لیا ہے۔
پی بی اے کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا، پیمرا پہلے ہی 119 چینلوں کو لائسنس جاری کر چکا ہے جب کہ سسٹم میں صرف 80 چینلوں کی گنجائش ہے۔
انہوں نے کہا، پیمرا کو اس حوالے سے پہلے بھی ایک درخواست بھیجی جا چکی ہے جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس درخواست پر مارچ تک فیصلہ کر لیں لیکن پیمرا نے اس کے باوجود نئے لائسنس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا نئے لائسنسوں کے اجرا میں کوئی قانونی رکاوٹ درپیش ہے؟ جس پر پی بی اے کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹی وی سسٹم میں مزید چینلوں کی گنجائش نہیں ہے اور پیمرا نئے لائسنس جاری کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ پیمرا نے 25 دسمبر 2018 کو ایک اشتہار کے ذریعے سات مختلف کیٹیگریز میں 70 سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینلوں کے لائسنسوں کی بولی کے لیے درخواستیں طلب کی تھیں۔
میڈیا صنعت کے بحران میں مبتلا ہونے کے تاثر کے باوجود نئے ٹیلی ویژن چینلوں کے لائسنسوں کی نیلامی پر پیمرا کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دو روز تک جاری رہنے والی نیلامی کا سلسلہ تین مئی کو ختم ہوا جس میں سٹیلائیٹ چینلوں کے 58 لائسنس نیلام ہوئے اور سب سے مہنگی بولی نیوز اور کرنٹ افیئرز کے چینل کے لیے لگی جو 28 کروڑ 35 لاکھ روپے کی تھی جب کہ انٹرٹینمنٹ کیٹیگری میں سب سے بڑی نیلامی 55 لاکھ روپے میں ہوئی۔