کرونا وائرس سے ملک میں صرف 28 اپریل سے 7 مئی کے دوران 297 اموات رپورٹ ہوئیں جو اب تک ملک میں ہونے والی 591 کا 49.7 فیصد بنتی ہیں۔ جبکہ اس سے قبل ان اموات میں اضافے کی شرح ایک گنا کم رہی تھی۔ اور اس خطرناک رجحان کے باوجود کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں 9 مئی کے بعد سے نرمی کا فیصلہ کیا ہے۔
پابندیاں نرم کرنے کے بعد اب مارکیٹوں کو ہفتے میں پانچ دن کھلنے کی اجازت ہو گی لیکن صوبوں کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیے جانے کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
28 اپریل سے 6 مئی تک ملک بھر میں 10ہزار 365 مصدقہ کیسز رپورٹ ہوئے جو اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز کا ایک تہائی بنتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ اضافہ 6 مئی کو ریکارڈ کیا گیا تھا جب ملک میں ایک ہزار 430 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مئی کے مہینے میں وائرس عروج پرپہنچ سکتا ہے جس سے رپورٹ ہونے والی کیسز اور اموات کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
روزنامہ ڈان نے لکھا ہے کہ اپریل کے اختتام پر سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے انفیکشن ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر سنیل دودانی نے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مثبت کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، شدید بیماری کے حامل مزید مریض سامنے آرہے ہیں، یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اگلے دو سے تین ماہ انتہائی اہم ہوں گے جب وائرس اپنے عروج پر پہنچ رہا ہوگا۔
ایک دن قبل ہی عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا تھا کہ تمام ممالک کو وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مناسب اقدامات کو یقینی بنانا ہو گا۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروس ایڈہانوم نے کہا کہ اگر تمام ممالک نے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی اور انتہائی احتیاط سے کام نہ لیا تو دوبارہ لاک ڈاؤن کے نفاذ کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ پاکستان میں بڑھنے والے کیسز کی ایک بڑی وجہ ٹیسٹنگ کی رفتار بھی ہے جس میں گزشتہ کچھ عرصے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔