لاہور ہائیکورٹ میں شہری شرافت علی نے پنجاب اسمبلی کی بحالی کیلئے درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت آج جسٹس شاہد کریم نے کی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی جبکہ درخواست گزار پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔
درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ یہ کس طرح کی درخواست ہے۔ جس پر درخواست گزار شہری شرافت علی کے وکیل نے دلائل دیے۔ وکیل نے کہا کہ یہ درخواست گزارفیصل آباد سے ہے اورسیاسی کارکن ہے۔
جس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا یہ کیسی درخواست ہے؟ اس سےعدالت کاوقت ضائع ہوتا۔ جرمانہ معافی کی استدعا کی تو 2 لاکھ روپےجرمانہ کردوں گا۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے غیرقانونی طور پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجی تھی۔ اسمبلی کی تحلیل سے پنجاب کے عوام اپنے مینڈیٹ کی نمائندگی سے محروم ہیں۔ پرویز الہٰی کو عوامی نمائندگی کے خاتمے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اقدام غیرآئینی اور غیرقانونی ہے۔ درخوست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ پنجاب اسمبلی کی فوری بحالی کے احکامات صادر کرے۔
24 اپریل کو سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلیاں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر تحلیل کیں۔
نجی ٹیلی ویژن چینل کوانٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہوں نے صدر عارف علوی کے ساتھ جنرل باجوہ سے ملاقات کی تھی۔ جس میں جنرل باجوہ نے کہا کہ آپ اسمبلیاں تحلیل کردیں تو انتخابات کروادیں گے جس پر ہم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کردیں۔
عمران نے کہا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ جھوٹے ہیں ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے جو کہ ایک سال سے پی ٹی آئی کی برطرفی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ قمر باجوہ نے بہت پہلے امریکا کے ساتھ لابنگ شروع کر دی تھی ۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ نے انہیں بتایا تھا کہ جنرل (ریٹائرڈ) باجوہ گزشتہ سال اپریل میں عدم اعتماد کی قرارداد کےذریعے عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد شہباز شریف کو اقتدار میں لانا چاہتے تھے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مشرق وسطیٰ کے ایک رہنما نے انہیں ایک سال پہلے مطلع کیا تھا کہ باجوہ اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ اور انٹیلی جنس ایجنسی کو معلوم تھا کہ موجودہ حکمران قومی خزانے سے پیسہ چرا کر بیرون ملک لے گئے ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود جنرل باجوہ انہیں "این آر او" دینے کو تیار تھے کیونکہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔