معروف صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ میری اطلاعات ک مطابق پاکستان کے آرمی چیف کی تقرری کے لئے سمری 17 نومبر یا پھر 18 نومبر کو وزیراعظم شہباز شریف کو بھیج دی جائے گی اور اس کے آئندہ دو دنوں میں آرمی چیف کا نام فائنل ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
حال ہی میں صحافی عمر چیمہ کے ساتھ اپنے یوٹیوب چینل پر ایک وی-لاگ میں اعزاز سید نے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امکان یہی ہے کہ جیسے ہی شریف برادران نئے آرمی چیف کا نام فائنل کرلیں گے تب سمری طلب کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی اس موضوع پر نواز شریف سے مشاورت ضرور ہو گی۔ تاہم اگر سمری طلب نہیں کی گئی اس صورت میں بھی 17 یا 18 نومبر کو سمری وزیراعظم شہباز شریف کو بھیج دی جائے گی۔
وی-لاگ اینکر عمر چیمہ نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2 اہم عہدوں، آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف کمیٹی کے لئے شخصیات کے نام سمری میں شامل ہوں گے تاہم یہ سمری ممکنہ طور پر 19 نومبر تک بھیجی جائے گی کیونکہ 18 نومبر کو لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف ریٹائر ہوں گے۔ اگر سمری اس سے قبل بھیجی جائے گی تو ان کو بھی سمری میں نامزد کیا جائے گا۔
اعزاز سید نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق سمری 17 نومبر تک لازمی بھیج دی جائے گی لیکن اگر تاخیر ہوئی تو بھی 18 نومبر کو لازمی طور پر بھیج دی جائے گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کی سمری بھی 18 نومبر کو بھیجی گئی تھی۔ یہ بنیادی طور پر روایت ہے کہ کوئی افسر ریٹائر ہو رہا ہو تو کتنے روز قبل نئی تقرری کی سمری بھیجی جائے گی۔
اعزاز سید نے سمری کے حوالے سے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سوال اب یہ ہے کہ 2 عہدوں کی الگ الگ سمری جائے گی یا ایک ہی ہوگی۔ اس حوالے سے وزارت دفاع کے چند افسران سے بات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ ایک ہی سمری میں دونوں عہدوں کی تقرریوں کے لئے 5 یا 6 نام بھیجے جائیں گے۔ ان ناموں پر بحث ہو چکی ہے، نامزد افسران میں سب سے پہلا نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا ہے، پھرلیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد ، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان راجہ ، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، لیفٹیننٹ جنرل عامر کے نام ہیں۔ اور اطلاعات کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس میں سے کسی ایک کے امکانات زیادہ ہیں تاہم لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد بھی بہت مضبوط امیدوار ہیں۔ ان ناموں میں سے ہی کوئی ایک آرمی چیف اور کوئی ایک چیئرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف کمیٹی تعینات ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی نئے آرمی چیف کی تقرری ہوتی ہے تو امید کی جاتی ہے کہ وہ آئین اور قانون پر کاربند رہے لیکن یہ ایک امتحان ہوتا ہے۔ جو بھی نیا آرمی چیف ہو وہ اس امتحان پر پورا اترے ۔ فوج کو سیاست سے نکالے اور اپنا کام کرے۔ ان کی اور ادارے کی عزت بنے۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مثال یتے ہوئے کہا کہ انہوں نےکہا تھا کہ تو سیع نہیں لوں گا۔ وہ بھی ملکی سیاسی معاملات میں حصہ لیتے تھے لیکن جیسے وہ توسیع نہ لینے کے فیصلے پر قائم رہے آج بھی پوری فوج میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اعزاز سید نے فوجی عہدوں کے حوالے سے کہا کہ اگر کوئی نامزد شخص آرمی جیف نہیں بنتا اور چیئرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف کمیٹی بن جاتا ہے تو وہ فور اسٹار تو ہو جاتا ہے جبکہ جو ریٹائر ہوتے ہیں ان کو بھی ادارے کی جانب سے کچھ مراعات تو دی جاتی ہیں اور آرمی ویلفیئر جیسے اداروں میں لگا دیا جاتا ہے۔
اعزاز سید نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ممکنہ دورہ پاکستان کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک میڈیا میں بھی یہ بات گردش نہیں کر ہی لیکن میری اطلاعات کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 19 نومبر کو یا پھر قوی امکان ہے کہ 21 نومبر کو پاکستان کے ایک روزہ دورہ پر آئیں گے۔ اظلاعات یہ ہیں کہ ان کی آمد سے قبل ہی افواج پاکستان کے سربراہ کی تقرری کا فیصلہ ہو چکا ہو گا کیونکہ نئی عسکری قیادت سے ان کی ملاقات بھی کروائی جائے گی۔
انہوں نے فوجی قانون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جیسے اگر ٰعاصم منیر ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ 27 نومبر کو ہو رہی ہے لیکن جس دن وزیراعظم سمری پر دستخط کریں گے اسی دن سے ان کی محکمانہ ترقی ہوجائے گی۔ اگر وزیر اعظم 24 کو دستخط کر دیتے ہیں عاصم منیر یا کسی دوسرے نامزد افسر کو آرمی چیف بنا رہا ہوں تو وہ اسی تاریخ سے آرمی چیف مقرر ہو جائیں گے۔
اس قانون کے حوالے سے صحافی عمر چیمہ نے سوال کیا کہ جب تک باقاعدہ بیج نہیں لگ جاتے عہدے کی معیاد کا آغاز نہیں ہوتا کیاامکان ہےکہ یہ تقرری چیلنج ہو گی؟ جس کا جواب دیتے ہوئے اعزاز سید نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ پہلے سے ہی عمران خان صاحب نے صدر عارف علوی کو ہدایات دے رکھی تھیں کہ فلاں فلاں افسر کا نام آئے گا تو آپ نے سمری روک لینی ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ وہ سمری نہیں روکیں گے۔ اس بارے میں حکومت کو بھی علم ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر فرض کریں کہ جیسے 3 اپریل کو عمران ضان کے ضلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے قاسم سوری نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے ایک رولنگ جاری کر دی تھی جس کو 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا اور 9 اپریل کو عمران خان کو عہدےسے فارغ کر دیا گیا تھا تو کوئی بعید نہیں عمران خان آخری وقت پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن دائر کر سکتے ہیں لیکن چونکہ یہ سمری فوجی ادارے کے حوالے سے ہے تو سپریم کورٹ اس کا تحفظ بھی کرے گی اور اس پٹیشن کی سماعت نہیں کرے گی۔ عدالت اعظمیٰ نہیں چاہے گی کہ ایک دن بھی فوج کی سپریم کمانڈ پر کوئی سوال اٹھائے اور تقرری کو متنازع کرے۔
صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ عمران خان نے پہلے ہی فوج کی کافی مشق کروا لی ہے اور جب وہ جارہے تھے تو یہ بھی امکان تھا کہ وہ آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی نا کردیں۔ اسی صورتحال کے پیش نظر رات 11 بجےاسلام آباد ہائیکورٹ کھل گئی تھی توہم وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کو اتوار کے روز بھی کھلنا پڑتا ہے۔
اس بات پر اعزاز سید نے ردعمل کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ اس رات بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کسی کے کہنے پر کھولی گئی تھی۔ سپریم کورٹ خود کھلی تھی۔جو پٹیشن اس برطرفی کے خلاف دائر ہونی تھی اس کی کاپیاں تک بانٹ دی گئی تھیں ۔ بہرحال یہ بہت افسوسناک تھا کہ ہمارے ملک میں ایسا ہوتا ہے۔