وفاق کی مالیاتی ناکامیوں میں سب سے بڑا کردار صوبہ پنجاب کا ہے

اپنے پیشروؤں کی طرح وزیرا علیٰ پنجاب مریم نواز کی حکومت امیروں اور طاقتوروں پر ٹیکس نہ لگاتے ہوئے خدمات پر سیلز ٹیکس زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی خواہشمند ہے حالانکہ پنجاب کو امیر طبقے سے پراپرٹی ٹیکس اور ایگریکلچرل انکم ٹیکس جیسے بلاواسطہ ٹیکسز وصول کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

04:17 PM, 8 Nov, 2024

حذیمہ بخاری، ڈاکٹر اکرام الحق

پاکستان نے مالی سال 2025 کی پہلی سہ ماہی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کی جانب سے مقرر کردہ پانچ میں سے تین بڑی مالی شرائط کو پورا نہیں کیا، جس میں صوبوں کی طرف سے 342 ارب روپے کا کیش سرپلس حاصل کرنا بھی شامل تھا۔ وزارت خزانہ کی سرکاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب کا بجٹ غیر اطمینان بخش رہا، کیونکہ اسے رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں 160 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ دیگر تمام صوبوں نے کیش سرپلس کا وعدہ پورا کیا ہے — حکومت صرف دو مالی شرائط کو پورا کر سکی ہے، ایکسپریس ٹریبیون، 1 نومبر 2024

وفاقی حکومت نے بھی چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیش سرپلس ظاہر کرنے کا عہد کیا ہے، مگر وہ بھی معاہدے کے مؤثر ہونے کے فوراً بعد سے ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔۔۔ بورڈ آف ریونیو کا ٹیکس وصولی کا ہدف ہو یا صوبائی کیش سرپلس کا وعدہ، ان میں سے کچھ بھی پورا نہیں ہوا۔۔۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھی مارکیٹ سے طے شدہ زرمبادلہ کی شرح کے نظام کے خلاف بات کی ہے، جو کہ 7 بلین ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت کی ایک بنیادی شرط ہے — 7 بلین ڈالر IMF بیل آؤٹ معیشت کے تناؤ کی وجہ سے ناکام ہو رہا ہے، ایکسپریس ٹریبیون، 31 اکتوبر 2024

پاکستان کی موجودہ آبادی 252.60 ملین میں سے، صوبہ پنجاب سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ (2023 کی مردم شماری کے مطابق 127.66 ملین آبادی)، درحقیقت دنیا کے 12 سب سے بڑے آبادی والے ملکوں میں شمار ہو سکتا ہے! اس کے پاس وفاقی حکومت کے بعد سب سے زیادہ وسائل، بجٹ کا حجم اور نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ میں سے سب سے بڑا حصہ ہے، اس سال اس کا تخمینہ 3.695 ٹریلین روپے ہے۔ وفاق سے محصولات میں اتنا بڑا حصہ ملنے سے صوبہ اپنے ٹیکسز کی وصولی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

گذشتہ کئی سالوں سے ٹیکس وصولی میں پنجاب کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ اب وہ عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے 7 ارب کے 37 ماہ کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) پروگرام کی شرائط میں سے صوبائی کیش سرپلس کو پورا کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ رواں مالی سال (2024-25) کے پہلے تین مہینوں میں 867 ارب روپے کی کل آمدنی کے مقابلے میں 1027 ارب روپے خرچ کر کے پنجاب حکومت آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق صوبائی سرپلس 342 ارب میں اپنا حصہ پورا کرنے سے قاصر رہا ہے۔

ایک خبر کے مطابق، 'وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب کی توسیعی مالیاتی پالیسیوں کا صوبائی کیش سرپلس میں 342 ارب روپے کا مجموعی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ ہدف 182 بلین روپے یا 53 فیصد سے چھوٹ گیا، جس نے 7 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد میں سنگین چیلنجز کی نشاندہی کی۔۔۔ وزارت خزانہ کے مطابق، صوبوں کے پاس مجموعی طور پر 160 بلین روپے کا کیش سرپلس ہے۔۔۔ چاروں صوبائی حکومتوں نے موجودہ اخراجات کے لیے تقریباً 1.22 ٹریلین روپے جاری کیے، جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ ہیں۔۔۔ ان کے ترقیاتی اخراجات 257 ارب روپے تھے جو کہ صرف 4 فیصد زیادہ ہیں۔۔۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی صوبائی حکومت نے صرف موجودہ اخراجات پر 525 ارب روپے خرچ کیے۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی بجٹ کی کتابوں میں 378 بلین روپے کا خطرناک حد تک بڑا شماریاتی تضاد ہے'۔

2020 میں، وفاقی حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، پنجاب حکومت نے ٹیکس اصلاحات کے لیے ورلڈ بینک سے 304 ملین ڈالر قرض لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل وفاقی حکومت نے پاکستان ریزز ریونیو (PRR) پروجیکٹ کے لیے 400 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا تھا۔ اس طرح کے قرضے، اگرچہ بالکل بھی ضروری نہیں تھے، اور یہ اس وقت لیے گئے جب 30 جون 2020 تک ہمارے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 87.2 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ گیا — قرضوں میں 15 فیصد اضافہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے اپنے اقتدار کے پہلے دو سال میں کیا گیا!

ایک پریس رپورٹ کے مطابق، اس وقت کی پنجاب حکومت نے 'ممکنہ غیر ٹیکس شدہ سیکٹرز کو شامل کر کے اپنی ٹیکس وصولی میں اضافہ کرنے کی کوششیں شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا'۔ اس رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا؛ '304 ملین ڈالر کے قرض میں سے، صوبائی حکومت گرانٹ میں 30 ملین ڈالر حاصل کرنے کی خواہش مند ہے لیکن ابھی شرائط حتمی نہیں ہیں'۔

رپورٹ کے مطابق وزارت منصوبہ بندی نے 16 ستمبر 2020 کو قرض کی منظوری دی تھی۔ یہ اب بھی ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس میں اجرا کی تاریخ 15 ستمبر 2020 درج ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے؛ 'سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) نے 304 ملین ڈالر (50 بلین روپے) مالیت کے پنجاب ریسورس امپروومنٹ اینڈ ڈیجیٹل ایفیکٹینیس پروگرام (PRIDE) کے لیے ایک کانسیپٹ کلیئرنس پیپر کی منظوری دی ہے'۔

رپورٹ کے مطابق یہ بہت بڑا قرضہ 'ٹیکسیشن کو مزید ترقی پسند بنانے، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ٹیکس دہندگان اور ٹیکس جمع کرنے والوں کے درمیان تعامل کو کم کرنے اور کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے' کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ مجوزہ مقالے میں 'کاروباری عمل کی دوبارہ انجینئرنگ، نظرثانی، قواعد و ضوابط کی تبدیلی، جامع خودکار نظام کی ترقی، ای خدمات کا تعارف اور ادارہ جاتی صلاحیت کی تعمیر وغیرہ' شامل تھے۔

2020 کی اس رپورٹ کے مصنف نے ایک درست اعتراض اٹھایا کہ 'ان تمام افعال کو پورا کرنے کے لئے کسی غیر ملکی رقم کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ صوبائی ٹیکس کی محدود بنیاد کو بڑھانے کے لیے سیاسی امر (will) کی ضرورت ہے'۔ یکے بعد دیگرے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ٹیکس نظام میں اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری تمام حکومتوں، فوجی اور سویلین، نے شرحوں میں کمی اور مؤثر نفاذ کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

پی ٹی آئی حکومت کے ورلڈ بینک سے 400 ملین ڈالر قرض لینے کے فیصلے کو اس مصنف نے 2019 میں 'بنیادی ٹیکس اصلاحات' (ڈیلی ٹائمز، مارچ 12، 2019) میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ ماضی میں غیر ملکی امداد سے ٹیکس اصلاحات مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی تھیں۔

یاد رہے کہ ورلڈ بینک نے 2004 میں ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارم پروجیکٹ (TARP) کے لیے پاکستان کو 125.9 ملین ڈالر فراہم کیے، جس میں سے 102.9 ملین ڈالر کا IDA کریڈٹ اور 23 ملین ڈالر کی DFID گرانٹ بھی شامل تھی۔ TARP کا مقصد 'تنظیمی کارکردگی اور ریونیو ایڈمنسٹریشن کی کارکردگی کو بہتر بنا کر ٹیکس انتظامیہ میں شفافیت، دیانتداری اور انصاف پسندی کو رائج کرنا تھا'۔

یہ قومی شرم کی بات تھی کہ ٹیکس انتظامیہ کی شفافیت، دیانت داری اور انصاف پسندی کو بہتر بنانے کے لیے اس وقت کی حکومت نے اتنے بھاری بیرونی قرضے لینے کا فیصلہ کیا۔ حیران کن طور پر 2012 میں ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب، توسیع شدہ ورلڈ بینک کی مالی اعانت سے چلنے والے TARP کے آخری سال میں گھٹ کر 8.2 فیصد رہ گیا، جبکہ 2005 میں جب پروگرام شروع ہوا تو یہ 10.6 فیصد تھا!

ورلڈ بینک نے TARP پر اپنی رپورٹ، 'عمل درآمد، تکمیل اور نتائج کی رپورٹ' میں اعتراف کیا کہ 'پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی موجودہ محدود بنیاد 2005-2012 کے دوران تقریباً وہی رہی اور اس میں کوئی بھی خاطر خواہ بہتری نہ ہوئی، باوجود اس کے کہ بالواسطہ ٹیکسوں میں اصلاحات کی بھرپور کوشش ایک اصلاح شدہ سیلز ٹیکس کا ڈھانچہ اور قانون متعارف کراتے ہوئے کم از کم چھوٹ اور سامان اور خدمات کی وسیع کوریج کو شامل کرنے کی تجاویز تھیں'۔

تمام جمہوری ممالک میں اصلاحات کے لیے منتخب پارلیمانوں کے ذریعے خصوصی ہاؤس کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ یہاں پاکستان میں ہم یہ کام غیر ملکی قرضوں اور بیوروکریٹک (bureaucratic) ڈھانچے کے ذریعے کر رہے ہیں، جو فرسودہ، ناکارہ، نااہل اور مشکوک ہیں۔ ٹیکس قوانین کے لئے قانون سازوں کا کام، مرکز اور صوبوں دونوں میں، ریونیو کریسی (Revenuecracy) کو دیا جاتا ہے (یہ اصطلاح مرحوم ڈاکٹر پرویز طاہر سے مستعار لی گئی ہے، جنہوں نے اسے اپنے مضمون؛ 'پی ٹی آئی کا بجٹ — پرانا معمول' میں استعمال کیا) جو خود ہی مسئلے کی جڑ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے مصیبت پیدا کرنے والوں سے پریشانی کا حل تلاش کرنے کو کہا جائے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان ریزز ریونیو (PRR) پروجیکٹ کی کل لاگت 1.6 بلین امریکی ڈالر ہے، جس میں ہم منصب (counterpart) کا حصہ 1.2 بلین ڈالر اور IDA نے 400 ملین ڈالر کی فنانسنگ کی۔ ماضی میں بھی، ورلڈ بینک، برطانیہ کے محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی (DFID) جس کی جگہ اب فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس (FCDO) اور دیگر نے پاکستان کو ٹیکس موبلائزیشن کی خاطراصلاحات کے نام پر بہت زیادہ رقم دی، مگر پھر بھی حالات بد سے بدتر ہو چکے ہیں۔

وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے ٹیکس اصلاحات کے پروگراموں کی بھاری فنڈنگ ​​کا بڑا حصہ، جیسا کہ توقع کی گئی تھی، نام نہاد غیر ملکی ماہرین کی جیبوں میں چلا گیا جنہیں ہماری زمینی معروضی حقیقتوں کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ بقیہ فنڈز کو تمام سطحوں پر ٹیکس ایجنسیوں میں ناکارہ اور نااہل افرادی قوت نے انتہائی بے دردی اور بے رحمی سے ضائع کیا مگر کسی کا بھی احتساب نہیں ہوا کہ عوام کو قرضوں کی دلدل میں کیونکر دھکیل دیا گیا۔

وزارت منصوبہ بندی کی طرف سے حکومت پنجاب کے ٹیکس اصلاحات کے لئے قرض کی منظوری سے قبل، اس شعبے میں مقامی ماہرین سے رائے لینا ضروری ہونا چاہیے تھا۔ ایسا کرنا تو دور کی بات، اس پر ایوان پنجاب اسمبلی سے منظوری حاصل کرنا تو کجا، کوئی بحث تک نہیں ہوئی، اور صوبہ کے باسیوں پر سال 2020 میں 304 ملین ڈالر کا قرضہ، جو اس وقت تقریباً 50 ارب روپے بنتے تھے، کا بھاری بوجھ ڈال دیا گیا۔

ٹیکس کے نظام کی اصلاحات کے لئے کثیر غیر ملکی قرضہ لینے کے بعد، ایک رپورٹ کے مطابق، 2020 میں پنجاب حکومت 'صوبائی ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کی اپنی کوششوں میں ناکام ہوئی، جس سے رواں مالی سال کے لیے 294.9 بلین روپے کے بجٹ کے ہدف کو حاصل کرنے کی لئے اس کی صلاحیت پر تشویش پائی گئی'۔ پنجاب مالی سال 2020 کی پہلی ششماہی میں صرف 104.6 بلین روپے اکٹھا کر سکا جو پورے سال کے ہدف کا بمشکل 35.5 فیصد تھا۔ مالی سال 2018-19 کی اسی مدت کے مقابلے میں وصولی 11.8 فیصد زیادہ تھی، جو اس مدت کے لیے 12 فیصد کی اوسط افراط زر کی شرح سے معمولی طور پر کم تھی۔ اس نے اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پنجاب میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کے ان دعوؤں کو بے نقاب کر دیا کہ اس کے دور میں ٹیکس وصولیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا!

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کی زیر قیادت پنجاب حکومت سے قبل گذشتہ دو مالی سالوں کے دوران، پہلی ششماہی میں اوسط وصولی عام طور پر سالانہ اہداف کا 40-42 فیصد بنتی تھی۔ مالی سال 2020 کے اختتام پر، پنجاب کی کل ٹیکس وصولی 294.9 بلین روپے کے ہدف کے مقابلے میں صرف 189.7 ارب روپے تھی۔ چار سال کے بعد، مالی سال 2024 میں یہ محض 326 بلین روپے تک ہی پہنچ سکی ہے۔ یہ ہے کارکردگی پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کی، جس میں 2024 میں کم از کم 128 ملین افراد رہتے ہیں!

پنجاب کے ہر سال کے بجٹ میں ریونیو موبلائزیشن کے اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں جن میں ایگریکلچرل انکم ٹیکس (AIT) کی شرحوں میں نظرثانی کی تجویز بھی شامل ہوتی ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پنجاب اسمبلی میں براجمان امیر غیر حاضر زمینداروں اور پوش بنگلوں اور فارم ہاؤسز کے مالکان کبھی بھی اپنے اوپر ذاتی ٹیکس لگانے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔

19 اپریل 2010 سے لاگو ہونے والی اٹھارویں آئینی ترمیم کے تناظر میں ترقی پسند ٹیکس جیسے غیر منقولہ جائیداد پر ویلتھ ٹیکس اور کیپیٹل گین ٹیکس، سٹیٹ ڈیوٹی (جسے مغرب میں وراثت ٹیکس کہا جاتا ہے) اور گفٹ ٹیکس صوبوں کے پاس ہے لیکن دیگر صوبوں کی طرح پنجاب نے بھی ان ٹیکسوں کو لگانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔

زرعی انکم ٹیکس کی معمولی وصولی اس نکتے کو ثابت کرتی ہے — یہاں تک کہ مالی سال 2023-24 میں یہ 3 ارب روپے تک نہیں بھی نہیں پہنچا۔ اس کے لیے ہر سال طے کیے گئے اہداف کبھی پورے نہیں ہوتے۔ مالی سال 2022 میں اصل وصولی صرف 2.1 بلین روپے تھی، جبکہ مالی سال 2021 میں یہ 2.4 بلین روپے تھی۔ رواں سال کا 3.2 بلین روپے کا ہدف اصل صلاحیت سے بہت کم ہے، لیکن پنجاب اسمبلی میں بیٹھی امیر زرعی لابی واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کو تیار نہیں۔ اب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ صوبوں کے ذریعے ایگریکلچرل انکم ٹیکس کی وصولی انہی شرحوں پر کی جائے جو وفاقی ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرحوں کے تحت یکم جولائی 2024 سے نافذ العمل ہیں۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف کی کنٹری رپورٹ نمبر 24/310 کہتی ہے؛

'صوبائی ٹیکس اصلاحات میں شامل ہوں گے (i) ان کے زرعی انکم ٹیکس (AIT) کے نظام کو وفاقی ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کے ساتھ اکتوبر 2024 کے آخر مکمل طور پر ہم آہنگ کرنا اور (ii) یکم جنوری 2025 سے اس کا نفاذ۔۔۔'۔

31 اکتوبر 2024 تک صوبوں نے کچھ نہیں کیا اور اب 31 دسمبر 2024 کی نئی ​​ڈیڈ لائن مانگی ہے! جہاں تک وصولی کے معاملات ہیں ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اور دیگر تین صوبوں نے ابھی تک نئی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کے لیے ٹاسک کمیٹیاں بھی نہیں بنائی ہیں! وفاقی وزیر خزانہ یکم جولائی 2025 سے ایگریکلچرل انکم ٹیکس کی وصولی کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ آئی ایم ایف اپنی حالیہ کنٹری رپورٹ میں نفاذ یکم جنوری 2025 سے چاہتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اگر چھوٹ (waiver) حاصل کر لی ہے تو اس کا سرکاری سطح پر اعلان ہونا چاہیے۔

برسوں تک، پنجاب حکومت نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے ڈویلپمنٹ پالیسی ریسرچ سنٹر (DPRC) کی طرف سے ریسرچ، پاکستان کے پنجاب میں اربن پراپرٹی ٹیکس میں اصلاحات، میں منصفانہ پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے کے لیے اقدامات کا مطالعہ کرنے تک کی زحمت نہیں کی۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ پوش بنگلوں اور فارم ہاؤسز کے مالکان سیاسی طور پر کتنے طاقتور ہیں۔ ہمارے نام نہاد میڈیا نے بھی کبھی کسی پروگرام میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ کسی بھی جید صحافی نے صوبہ کے وزیرا علیٰ سے کسی انٹرویو میں یہ سوال تک نہیں پوچھا!

موجودہ پنجاب حکومت نے اپنے پیشروؤں کی طرح تین ٹیکس محکموں، یعنی پنجاب بورڈ آف ریونیو، محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور پنجاب ریونیو اتھارٹی، کو ضم کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات نہیں کیں۔ شہریوں کو ون ونڈو کی سہولت فراہم کرنے، دوگنے اخراجات سے بچنے اور مؤثر اور بہتر وصولی کو یقینی بنانے کے لیے ان کو ایک میں ضم کیا جا سکتا تھا، لیکن آج تک ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

اپنے پیشروؤں کی طرح، وزیرا علیٰ مریم نواز کی سربراہی میں حکومت، امیروں اور طاقتوروں پر ٹیکس نہ لگاتے ہوئے، خدمات پر سیلز ٹیکس زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی خواہشمند ہے، جس کا بوجھ آسانی سے صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ ایک رجعت پسند بالواسطہ ٹیکس ہے۔ پنجاب کو امیر طبقے سے زیادہ بلاواسطہ ٹیکسز جیسا کہ پراپرٹی ٹیکس اور ایگریکلچرل انکم ٹیکس وصول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کو غریب اور پسماندہ علاقوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ 

اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت، ہمیں جمہوری عمل کے ذریعے، آل پاکستان یونیفائیڈ ٹیکس سروسز کے زیر انتظام ایک خود مختار ٹیکس وصولی ایجنسی، نیشنل ٹیکس اتھارٹی (NTA) قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ NTA کے کام کو مشترکہ مفادات کی کونسل (آرٹیکل 153) کے تحت زیر بحث لایا جا سکتا ہے اور اس کا کنٹرول قومی اقتصادی کونسل (آرٹیکل 156) کے تحت ہو سکتا ہے۔ صوبوں کو قومی ٹیکس پالیسی اور وصولی میں حصہ ملنا چاہیے، کیونکہ این ایف سی ایوارڈ میں ان کا حصہ وفاقی حکومت سے زیادہ ہے۔ آسان اور کم شرح والے ٹیکسوں کے ساتھ یہ نیا ماڈل معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ موجودہ اور مستقبل کے سرمایہ کاروں کے لیے انتہائی ضروری کاروباری ماحول کو یقینی بنا سکتا ہے۔

مزیدخبریں