رواں ہفتے قومی اسمبلی کی کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ ملک کے آٹھ بڑے بینکوں نے ڈالر کی قیمت بڑھائی۔ اس پر معیشت پر گہری نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا نے اپنے پروگرام The Review میں کامران یوسف کو بتایا کہ ان بینکوں نے اس ناجائز منافع خوری سے اربوں روپے کمائے۔ کامران یوسف نے بتایا کہ بینکوں نے ڈالر کا ریٹ زیادہ کوٹ کر کے تین ماہ میں 28 ارب روپے منافع کمایا۔ ان تمام بینکوں نے پورے مالی سال، یعنی 12 ماہ میں 37 ارب روپے منافع کمایا تھا لیکن صرف تین ماہ میں 28 ارب کما لیا۔
شہباز رانا کا کہنا تھا ان بینکوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے۔ یہ بات صرف 28 ارب روپے کے منافع کی نہیں ہے۔ یہ بات ملکی عزت اور اس کے ٹرسٹ کی ہے۔ جب ان بینکوں نے روپے کی بے قدری کی تو یہ صرف پیسہ کمانے کے لیے نہیں تھی۔ اس سے مہنگائی بے تحاشا بڑھی۔ غریب لوگ جو بمشکل دو وقت کا گزارا کر پاتے ہیں، ان کا کسی نے نہیں سوچا۔ ورلڈ بینک کی جنوری 2022 کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 44 فیصد آبادی کے مطابق انہیں اگلے ہفتے کے کھانے کی فکر ہوتی ہے۔ جس ملک کی 44 فیصد آبادی کو اگلے ہفتے کے کھانے کی فکر ہو، اس کا یقین نہ ہو، آپ کو فکر ہو کہ آپ نے اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالنا ہے، وہاں پر یہ آٹھ بینک کرنسی کے ساتھ یہ کھلواڑ کریں، ملک میں مہنگائی کا طوفان آ جائے، بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا ہو اور وہاں یہ کہا جائے، جو کہ وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا، کہ فنانشل سیکٹر کے استحکام کے لیے ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ایسا اقدام لیں جس سے نقصان ہو۔
پروگرام کے میزبان شہباز رانا کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے فنانشل سیکٹر کے استحکام کو دیکھنا ہے تو عوام کو کون دیکھے گا؟ اگر ان بینکوں کو عبرت کا نشان نہ بنایا گیا تو اسی طرح دوبارہ کرنسی سے کھیلا جائے گا۔ ہم یہ 2005 کے سٹاک مارکیٹ کریش میں دیکھ چکے ہیں جب پانچ بڑے بروکرز نے ایک بحران پیدا کیا لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا اور معاملات یوں ہی چلتے رہے۔ امید کرتے ہیں کہ سٹیٹ بینک اس پر کوئی ایکشن لے گا اور تگڑا ایکشن لے گا۔
یاد رہے کہ اسی قسم کا کام جب بنگلہ دیش میں ہوا تھا تو بنگلہ دیش نے کمرشل بینکوں کو لکھا کہ ان بینکوں کے جو ذمہ دار عہدیداران تھے ان کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے، جو کہ ہٹا دیا گیا۔