عفت ُعمر کو دیے گئے اس انٹرویو میں نعمان اعجاز کا مذید کہنا تھا کہ می ٹو موومنٹ پاکستان جیسے ممالک میں دین سے دوری کا سبب بن رہی ہے۔ اس طرح کا رویہ پاکستانی مردوں کی منافقت کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود بیوی کو دھوکہ دینا ذہانت کی علامت سمجھتے ہیں، وہیں دوسری طرف خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی تحریکوں کو وہ مذہب سے دوری کا نام دے دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے اس طرح کے تمام رجحانات کا سبب وہ مردانہ سوچ ہے جو مرد کو معاشرے میں عورت کی نسبت اعلیٰ مقام مہیا کرتی ہے۔ اسی لیے مرد بلا خوف و خطر خواتین کے خلاف امتیازی سلوک میں ملوث رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کو اداراتی، مذہبی، خاندانی اور معاشی برتری اور تحفظ حاصل ہے۔
پاکستان میں رہنے والے لوگوں کے لیے معاشرے میں طاقتور اور اہم مقام رکھنے والے مردوں کی طرف سے ایسی باتوں کا سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستانی معاشرے میں طاقتورمقام رکھنے والے مرد شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بغیر نتائج کہ نہ صرف خواتین کو دھوکہ دے سکتے ہیں بلکہ وہ خواتین کے ساتھ کیے جانے والے غیر منصفانہ سلوک کو معاشرے میں مردوں کے طاقتور مقام کی وجہ سے اخلاقی طور پر بھی صحیح سمجھتے ہیں۔ عمومی طور پر پدر شاہی پر مبنی معاشرے میں خواتین کو بطور ایک برابر انسان کے دیکھنے کی بجائے انہیں اشیا (Objects) کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مگر گزشتہ چند سالوں میں جہاں پوری دنیا میں خواتین نے جنسی ہراسانی اور خواتین کے خلاف کیے جانے والے مظالم کی بات می ٹو موومنٹ کے پلیٹ فارم سے عوام کے سامنے رکھی، وہیں اس تحریک نے پاکستان کے اندر بھی خاص طور پر شہروں میں رہنے والی مڈل کلاس خواتین کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ نہ صرف جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد اور دوسرے مظالم کے خلاف آواز بلند کر سکیں، بلکہ اس تحریک کے ذریعے پاکستان میں خواتین نے مردوں کے ُرجعتی رجحانات پربھی سوالات ُاٹھائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نعمان اعجاز جیسے طاقتور فنکاروں کے رجعتی نظریات کو عفت عمر جیسی خواتین چیلنج کرتی ہیں تو اس طرح کے مرد ہمیشہ اپنے جرائم کو ُچھپانے کے لیے مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے ساتھ کیے جانے والے غیر مساوی سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو باتیں نعمان اعجاز ایک نیشنل ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر رہے تھے اگر ایسی ہی باتیں کسی خاتون نے کی ہوتیں تو اس وقت تک نہ صرف ُاس خاتون پر فتوے جاری ہو ُچکے ہوتے بلکہ پورے معاشرے میں اسکے خلاف طرح طرح کی باتیں بھی ہو رہی ہوتیں۔ کیا وجہ ہے کہ تعمان اعجاز جیسے مرد نہایت بے باکی سے ٹی وی پر بیٹھ کر خواتین ٘مخالف جذبات کا اظہار کرتے ہیں لیکن اگر کوئی خاتون اپنے حقوق کے دفاع کے لیے بات کرے تو وہ ایک سکینڈل کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت مارچ کے دوران آویزاں کیے گئے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے پوسٹرز اور خواتین صحافیوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے خلاف چلائی جانے والی کیمپینز کو نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر اسلامی بھی قرار دے دیا جاتا ہے
ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے اس طرح کے تمام رجحانات کا سبب وہ مردانہ سوچ ہے جو مرد کو معاشرے میں عورت کی نسبت اعلیٰ مقام مہیا کرتی ہے۔ اسی لیے مرد بلا خوف و خطر خواتین کے خلاف امتیازی سلوک میں ملوث رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کو اداراتی، مذہبی، خاندانی اور معاشی برتری اور تحفظ حاصل ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان کے اندر اس مردانہ سوچ کو خواتین کی جانب سے منظم انداز میں چیلینج کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں منعقد ہونے والے عورت مارچز، بلوچستان اور ملک کی مختلف جامعات میں طالبات کا جنسی ہراسانی کے خلاف منظم ہونا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خواتین کا ُکھل کر اپنے حقوق کا دفاع کرنا اس پدر شاہی پر مبنی معاشرے میں روشنی کی ایک ُامید بھی ثابت ہو رہا ہے۔ مگر خواتین کی معاشرے میں اپنے حقوق لے لیے لڑائی تب تک مکمل نہیں ہو سکے گی جب تک شعور رکھنے والے مرد پدر شاہی رویوں کی ُکھل کر حوصلہ شکنی اور مخالفت نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے قانونی ڈھانچے کہ اندر بھی بہت سے ایسے سقم موجود ہیں جو مردوں کو خواتین کی نسبت زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ نعمان اعجاز کی رجعتی باتوں پر خواتین کا ُکھل کر اپنے موقف کا اظہار کرنا اور ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنا کم از کم سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ایک نئے بیانیے کی تشکیل دے رہا ہے۔