خانم پہلے چھوٹی چھلنیوں پر مصوری کرتی رہی جو عام طور پر دیہات کے گھروں میں آٹا چھننے کیلئے استعمال ہوتی ہیں لیکن اب وہ چھلنی کے اندر جالی کی طرز کی بڑی جالیوں پر تصویرکشی بھی کرلیتی ہیں۔ الماس کا کہنا ہے کہ وہ کپڑے پر بھی مصوری کرتی ہیں مگر انہیں چھلنی پر کام کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے کیوں کہ ایک تو اس پر تصویر اچھی بنتی ہے اور دوسرا وقت بھی کم لگتا ہے۔
الماس خانم نے بتایا کہ مجھے بے انتہاء خوشی ہوئی کہ میرے آرٹ ورک کی وجہ سے مجھے فخر پختونخوا کا ایوارڈ دیا جارہا ہے اور میں یہ ایوارڈ اپنے ان ہیروز کے نام کرتی ہوں جنکی تصویروں کی مصوری کی وجہ سے مجھے ایک آرٹسٹ کے طور پر پہچان ملی ہے۔ اس سے پہلے بھی افغان پیس انٹرنیشل کانفرس کی طرف سے مجھے ایوارڈ دیا گیا ہے۔
الماس مزید کہتی ہیں کہ میرے علاقہ میں ایسی بہت ساری لڑکیاں ہیں جو کچھ کرنا چاہتی ہیں مگر ہمارے معاشرے میں ان کو گھر سے ہی ایسے کسی کام کی اجازت نہیں ملتی جس سے ان کا ذکر باہر کے معاشرے میں ہو۔ خانم نے اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والدین اور بھائیوں نے مجھے ہمیشہ حوصلہ دیا لیکن معاشرے میں طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں لیکن جب میرے سامنے ایسی کوئی بات آجائے جس سے میری حوصلہ شکنی ہو تو مجھے میرے والد طالب جان کا ایک پشتو شعر یاد آتا ہے۔
دلته داسې بلها لوستي جاهلان دي
لکه هسې کتابونه په خرو بار دي
یعنی ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے پڑھے لکھے جاہل (جہلا) بھی ہیں جیسے کتابیں کسی گدھے پر لدی ہوئی ہوں۔ اور میرا مشن ہے کہ میں اس طرح نہ ہوں کہ صرف بہت ساری کتابیں پڑھ لوں بلکہ اپنے علاقے اور ملک کا اپنے فن سے نام روشن کروں اور مستقبل میں ایسی خواتین کیلئے ناصرف مشعل راہ بنوں بلکہ ان کی مدد کروں جو کسی نہ کسی وجہ سے آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔ خواتین بارے تمام مسائل کا حل شعوری بیداری ہے اور میرا خیال ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں شعوری بیداری آگئی تو عورتوں کی حوصلہ شکنی بارے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
الماس خانم کی خواہش ہے کہ وہ اپنی ایک آرٹ اکیڈمی بنائیں اور اس میں ان لڑکیوں کو پڑھنے کا موقع ملے جو آرٹ کے کام سے دلچسپی رکھتی ہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک میں باصلاحیت آرٹسٹوں کی کمی نہیں ہے لیکن انہیں صرف حوصلہ افزائی اور نکھارنے کی ضرورت ہے جیسے ہیرا تراشنے اور نکھارنے سے ہیرا بنتا ہے۔
یہ ہونہار طالبہ اب تک مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی مصوری کرچکی ہیں جن میں محترمہ بینظیر بھٹو، ہدایتکار اور اداکار جمال شاہ، فقیر ایپی، ڈاکٹر خالق زیار، افغانستان کے صدر اشرف غنی، نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی، اور باچا خان سمیت مختلف ہیروز شامل ہیں۔
ایچ جے پروڈکشن کے چیف ایگزیکٹو حمزہ جمشید نے بتایا کہ اس سال کے فخر پختونخوا ایوارڈ شو کا ہمارا یہ دوسرا سیزن ہے اور اس سے پہلے پچھلے سال بھی 100 لوگ فخر پختونخوا ایوارڈ سے نوازے جاچکے ہیں۔ اور انشاء اللہ یہ ہمیشہ چلتا رہے گا کیونکہ ہمارا اصل مقصد خیبر پختونخوا کے ان قومی ہیروز کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو بڑی محنت اور قربانیوں سے اپنے شعبے میں ناصرف اپنا بلکہ پوری قوم کا نام روشن کرتے ہیں۔
حمزہ جمشید کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا ایک المیہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو اس وقت ایوارڈز سے نوازتے ہیں جب وہ اس دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں لیکن ہم اس روایت کو توڑنا چاہتے ہیں اور اپنے باصلاحیت فنکاروں، ادیبوں، سیاستدانوں اور صحافیوں وغیرہ کو ان کی زندگی ہی میں انہیں عزت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس پروڈکشن ہاوس کا آغاز کیا۔