جین مذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ پاکستان میں جین مذہب کے بڑے گہرے اثرات رونما ہوئے ہیں۔ ایک قدیم عرصے تک یہاں کے لوگوں کا مذہب جین مت رہا ہے۔
جین مت کے آغاز کے متعلق تاریخی اعتبار سے کوئی خاص شواہد نہیں ملتے۔عام طور پر لوگ اس کو ہندو مذہب کا ہی حصہ سمجھتے ہیں جو کہ درست نہیں۔ جین مذہب کے ماننے والوں کے بقول مہاویر آخری تیر تھنکر(رہنماء یا متلاشی راہ) تھے۔ ان سے قبل دنیا کے آغاز سے مہاویر تک تیر تھنکر آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مہاویر اور مہاتما گوتم بدھ کا زمانہ ایک ہی ہے۔ جین مذہب کے عقیدے کی بنیاد عقیدہ اہنسا یعنی عدم تشدد پر ہے۔ جین مت کے پیروکار فطرت سے زیادہ قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں جین مت کے دو اہم فرقے سویتامبر اور ڈ گمابر شامل ہیں۔ ان دونوں کے عقائد و نظریات کافی مختلف ہیں جین مت میں کسی کامل یا اعلی وجود یعنی خدا کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جین مت مجرد زندگی گزارنے پر زور دیتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس میں شاید کافی تبدلیاں آگئیں ہیں۔ لاہور میں تقسیم ہند سے پہلے جین مذہب کے ماننے والوں کی کافی تعداد تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور میں تقریباً 12جین مندرموجود تھے جو لاہور کے مختلف علاقوں میں واقع تھے۔ لاہور شہر میں اتنے مندر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ لاہور میں جین مذہب کے ماننے والوں کی آبادی خاصی تعداد میں تھی۔ لاہور گزٹئیر1884 ء میں موجود مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے ہر دس ہزار شہریوں میں سے چالیس سے زائد افراد جین ہوتے تھے۔ یہ کل آبادی کا 0.49 فیصد تھے۔ بعد ازاں 1941 ء کی ہونے والی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی کی شرح کم ہو کر 0.37 ہو کر رہ گئی۔
ہندو معاشرے کی سیاسی طاقت اور اسلام کی آمد کی وجہ سے جین مت کے افراد مغلوب رہے لیکن اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جین مبلغین کے علاوہ جین مت سے تعلق رکھنے والے مالدار افراد نے جین مذہب کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ نئے جین مندروں کی تعمیر، جین لٹریچر کی اشاعت، جین ہاسٹلز، جین لائبریریاں، جین ہال کا قیام اس صدی کا کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔ جس میں جین سادھوؤں اور مبلغین کے ذریعے اس مذہب کی فروغ و اشاعت میں اضافہ ہوا۔ لاہور میں جین مت کے لوگ ہندوؤں کی طرح ہی زندگی بسر کیا کرتے تھے اور ان کی آبادیاں بھی ہندوں کے ساتھ ہی تھیں۔ جین مذہب کے لوگ لاہور میں اندرون شہر بھاٹی دروازہ میں محلہ تھڑی بھابڑیاں اور اس کے اطراف اور شاہ عالمی دروازہ جبکہ بیرون شہر کرشن نگر، راج گڑھ اور گوالمنڈی اور فیروز پور روڈ نزد کلمہ چوک کی طرف رہتے تھے جن کے پرانے مکانات کسی حد تک آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مالدار طبقے کے لوگ تھے جو کہ لاہور میں تجارت سے وابستہ تھے۔ جن کو مقامی زبان میں بھابڑہ کہا جاتا تھا۔ انہی کے نام سے اندرون بھاٹی دروازہ تحصیل بازار میں تھڑی بھابھڑیاں اور محلہ بھابھڑہ جبکہ کلمے چوک سے نزدیک فیروز پور روڈ پر بھابڑہ سٹاپ آج بھی مشہور ہے۔ جبکہ دوسرا ایک طبقہ جو کہ سادھو ہوتے تھے وہ زیادہ تر اندرون شہر اور اس کے مضافات میں ہی نظر آتے تھے کیونکہ یہ ننگ دھڑنگ ہوتے تھے زیادہ تر مندروں کے اندر ہی رہتے تھے۔
ان کے بارے میں اے حمید اپنی کتاب '' لاہور لاہور اے'' میں لکھتے ہیں ''کبھی کبھی ننگ دھڑنگ سادھوؤں کی کوئی ٹولی بھی دسہرے کی تقریبات میں حصہ لینے لاہورآ جاتی تھیں۔ یہ مادر زاد برہنہ ہوتے تھے اور ان کے سارے بدن پر راکھ ملی ہوئی ہوتی تھی۔ یہ جینی فرقے کے سادھو ہوتے تھے۔ ان کا ڈیرہ سب سے الگ کسی پوشیدہ جگہ پر ہوتا تھا, جہاں صرف ہندو لوگ ہی جا کر ان کا آشیر باد حاصل کرتے تھے۔ یہ لوگ بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ ان کے مندروں میں کسی دیوی دیوتا کا بت نہیں ہوتا۔ میں نے ان کے مندر دیکھے ہیں۔ ان کے مندر کے سب سے بڑے استھان یعنی ہال کمرے کے وسط میں ایک چبوترہ ہوتا ہے جس پر مہاویر کی تعلیمات کی پرانی کتابوں کے نسخے رکھے ہوتے ہیں۔ وہاں جین مت کے ماننے والے جا کر ان کتابوں کو پڑھتے ہیں اور گیان دھیان کرتے ہیں.
لاہور میں جینی سادھو کبھی کبھار آتے تھے اور وہ صرف اپنے اپنے ڈیروں تک محدود رہتے تھے۔ شہر میں جانے کی انہیں اجازت نہیں ہوتی تھی۔ جینی سادھو کسی جان دار کو ایذاء پہنچانا یا اسے مارنا پاپ سمجھتے تھے۔ اس خیال سے کہ سانس لیتے وقت جراثیم ان کے منہ میں جا کر مر نہ جائیں وہ اپنے منہ پر سفید کپڑے کی باریک جالی باندھ لیتے ہیں۔ جب ان کی چارپائیوں میں کھٹمل پڑ جاتے ہیں تو وہ انہیں مارتے نہیں بلکہ اجرت پر ایک دو آدمی بلوا کر انہیں باری باری اپنی چارپائیوں پر لٹاتے ہیں۔ جب کھٹمل ان کا خون پی کر سیر ہوجاتے ہیں اور انہیں کسی اور کو کاٹنے کی حاجت نہیں رہتی تو یہ جینی لوگ اس کے بعد مزے سے چارپائیوں پر سو جاتے ہیں“۔
لاہور میں جین مت کے ماننے والوں نے جہاں جین مندر تعمیر کروائے وہیں انہوں نے دیگر عمارتیں بھی تعمیر کیں۔ ان میں ہوتا سنگھ روڈ پر واقع جین ہاسٹل، اندرون تحصیل بازار، جین منڈپ اور جین ہال بھی ہے۔اس کے علاوہ جین لوک سبھا جیسی تنظیم اور ان کا مذہبی پرچا بھی لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کی چھوڑی عمارتیں مختلف طرح کے استعمال میں لائی گئیں جن میں سے زیادہ تر بے نام و نشان ہو کر ختم ہو گئیں البتہ چند ایک باقی رہ گئیں ہیں۔ اب تو لاہور میں ایک بھی جین مذہب کے ماننے والا موجود نہیں ہیں ۔اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو امریکا اور کینیڈا میں اس وقت 85000 ہزار جینی رہ رہے ہیں۔ 2001 میں ہونے والی بھارت کی مردم شماری ہمیں بتاتی ہے کہ وہاں رہنے والے جینیوں کی تعداد اُس وقت 4,225,053 تھی۔ اس وقت سب سے بڑی جین آبادی والا صوبہ مہاراشٹر ہے جہاں 1.32%جین آباد ہیں۔ مدھیہ پردیش میں %0.91 گجرات میں %1.03 اور کرناٹک میں %0.74 جینی رہتے ہیں۔ بھارت کا کوئی بھی ایسا صوبہ نہیں ہے جہاں %2 یا اس سے زیادہ جینی آباد ہوں۔ صرف تین اضلاع ایسے ہیں جہاں جینیوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اُن میں سے ممبئی میں %4.76، کولہاپور %4.18 اور بلگرام میں 4.02 فی صد آبادی ہے۔ احمد آباد، اندور، اُدے پور، جے پور، بڑودا اور پونا میں جینیوں کی قابل ذکر آبادی پائی جاتی ہے۔ بھارت کے بہت سارے علاقوں میں بھی جینیوں کی آبادی بڑی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ جنوبی انڈیا کی تقریباً آدھی اگروال آبادی بھی مغلیہ دور تک جین مت سے تعلق رکھتی تھی، مگر اب اس آبادی کے وہ افراد جن کا تعلق جین مت سے ہے صرف %8.10 ہی باقی بچے ہیں۔ جینیوں کی ایک معقول آبادی تقسیم ہند سے پہلے پاکستان کے مختلف شہروں خصوصا لاہور، گوجرنوالہ، سیالکوٹ، ناروال، ملتان، ڈیر ہ غازی خان، سندھ میں نگر پارکر میں آباد تھی، مگر قیام پاکستان کے وقت وہ یہاں سے ہجرت کرگئے۔ اس کے باوجود یہاں کے مختلف علاقوں میں اُن کے خوب صورت مندر اور ان کی بنائی عمارتوں کے کھنڈرات اب بھی اُن کی یاد دلاتے ہیں۔
پچھلی صدی کے اختتام تک روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں دوسرے ممالک جانے والے جینیوں نے محنت کے شعبے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں بیرون وطن جانے کا سب سے پہلا سلسلہ کینیا اور یوگنڈا سے شروع ہوا، جس کے بعد 1997ء میں جینی تارکین وطن نے امریکا، کینیڈا اور انگلینڈ کا رخ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت امریکا اور کینیڈا میں 85,000جینی رہتے تھے۔ تب سے لے کر اب تک یہ آبادی بڑھ کر 160,000 تک پہنچ چکی ہے۔ اب 15,000 سے 20,000 جینی برطانیہ میں بھی رہتے ہیں۔ 14,000کینیا میں اور کچھ بلجیئم، دبئی، ابوظہبی، نیپال، سنگا پور، ملائیشیا، انڈونیشیا، جاپان اور آسٹریلیا میں بھی آباد ہیں۔
روزگار اور تجارت کے سلسلے میں جین مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد دنیا کے مختلف حصّوں میں پائے جاتے ہیں۔ لاہور میں جین مذہب کے ماننے والوں کی یادگاریں آج انتہائی پسماندہ اور خستہ حالی کا شکار ہیں۔ قیام پاکستا ن کے بعد غیر مسلموں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں، عمارتیں اور عبادت گاہوں کو محفوظ کرنے کی غرض سے حکومت پاکستان نے ایک بورڈ تشکیل دیا۔ جو محکمہ متروکہ وقف املاک بورڈ کہلاتا ہے ان کے ذمے ان تمام مندر، گردوارے اور غیر مسلموں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کی دیکھ ریکھ، سیوا سنبھال اور ان جگہوں کا تحفظ ان کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ یہ تمام پراپرٹیز اب تک محکمہ کی ملکیت میں ہیں لیکن آج تک محکمہ متروکہ املاک بورڈ کی جانب سے کسی بھی جین مذہب کی تاریخی عمارت کو محفوظ کرنا دور مسمار ہونے سے بچانے تک کی کوشش نہیں کی گئی۔ 1992 ء میں بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں لاہور سمیت پورے پاکستان بھر میں غیر مسلمانوں کی بہت سی عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا گیا۔ جن میں بہت سی عمارتیں بہت ہی تاریخی اہمیت کی حامل تھیں۔ جین مندروں کی عمارتیں اب لاہور میں باقی نہیں رہیں البتہ چند عمارتوں کے کھنڈرات آج بھی ان کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔
پرانی انار کلی کے نزدیک جین مندر کی ٹوٹی ہوئی عمارت آج بھی موجود ہے۔اس علاقے کا نام ہی جین مندر ہے۔ جبکہ اندرون تحصیل بازار استھانک واسی فرقے کا جین ہال اور جین لوک منڈپ آج بھی موجود ہے جس میں مہاجرین کے خاندان آباد ہیں۔ اس کے قریب ہی محلہ تھڑی بھابڑیاں آج بھی موجود ہے۔ یہاں دو جین مندر تھے جن کو بابری مسجد کے انتقام میں مسمار کر دیا گیا اور اس کی جگہ گھر تعمیر ہو چکے ہیں۔ فیروز پور روڈ پر بھابڑہ سٹاپ پر واقع مندر قیام پاکستان کے بعد جلد ہی ختم ہو گیا تھا۔ اس کے اطراف میں جینیوں کا محلہ تھا جو اب جدید آبادی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہوتا سنگھ روڈ سنت نگر کے علاقے میں واقع امر جین ہوسٹل کے کمروں میں مسلمان مہاجرین آباد ہیں۔ اس وقت امر جین ہاسٹل کی عمارت میں کم و بیش سو گھر آباد ہیں۔ ہاسٹل کے صحن میں مسجد اور واٹر پمپ لگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ باقی عمارتوں کا تذکرہ صرف کتابوں میں ہی باقی رہ گیا ہے۔ اگر لاہور میں جین مذہب کے کچھ نوادارات اگر کسی جگہ محفوظ ہیں تو وہ لاہور عجائب گھر کی عمارت ہے جہاں جین مت کے نوادارات پر مشتمل ایک پوری جین گیلری بنائی گئی ہے جس میں مختلف مندروں سے حاصل کی جانے والی مورتیاں اور دیگر مقدس اشیاء شامل ہیں۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جس طرح سکھوں کے جتھے ویزا لے کر پاکستان اپنی یاترا کرنے آتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے بہت سے مقدس مقامات کی تعمیر و مرمت ہوئی ہے اسی طرح جین مذہب کے تاریخی اور مقدس مقامات کے لئے بھی ویزے جاری کئے جانے چاہئے تاکہ نا صرف پاکستان کی تاریخی اہمیت سب کے سامنے واضح ہو بلکہ پاکستان کی طرف سے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا بھی پیغام جائے جو کہ ملک کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب ہوگا۔
(حوالہ جات)
ویکیپیڈیا جین انسائیکلو پیڈیا
لاہور گزئیٹر 1884 ء
جین ورلڈ ڈاٹ کام
انٹرویو جین اسکالر رویندر کمار جین
لاہور لاہور اے، مصنف اے حمید
جین دھرم کے مقدس مقامات، مصنف بابو نیمی داس
اجڑے دراں دے درشن، مصنف اقبال قیصر
(یہ مضمون پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی زندگیوں کو پیش کرنے والی ایک بلاگ سیریز رووادر کے اشتراک سے شائع کیا گیا ہے)