دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق لاہور شہر سے لے کر کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں یہ کام چوری چھپے جاری ہے کیوں کہ سیکس ٹوائز بنانا یا بیچنا پاکستان میں جرم ہے۔ خبر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے استعمال کے لئے سب سے زیادہ سیکس ٹوائز بنتے ہیں۔ ان میں سٹیل سے بنی مصنوعات شامل ہیں جن میں مردانہ اعضا مخصوصہ کا سانچہ سٹیل کے ذریعئے بنایا جاتا ہے۔ دوسری جانب مرد حضرات کے لئے بھی زنانہ اعضائے مخصوصہ بھی ان مصنوعات میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنسی اختلاط کے حوالے سے مقام ممنوعہ کی تسکین کے لئے مخصوص مصنوعات کی ڈیمانڈ بھی زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بنے سٹیل کے ان سیکس ٹوائز کو یورپ میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے جہاں کے صارفین چینی مصنوعات سے تنگ آچکے ہیں یا ان میں مضر صحت کیمیکلز کی موجودگی کو لے کر وہ پریشان ہیں۔ پاکستانی سٹیل سے بنے سیکس ٹوائز پائیدار بھی زیادہ ہیں اور چین اور بھارت کی نسبت ان میں زنگ بھی کم لگتا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی بار اس کاروبار سے منسلک افراد پولیس کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں تاہم نظام کی کمزوریاں انہیں اپنا کام جاری رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہاں یہ سیکس ٹوائز فیکٹریوں میں بنتے ہیں جن کو بظاہر میڈیکل پراڈکٹس بنانے والی فیکٹریاں قرار دیا گیا ہوتا ہے۔ جبکہ سپلائی میں سب سے زیادہ کام آن لائن ہوتا ہے۔ تاہم سیلون اور بیوٹی پارلرز میں بھی اکثر خواتین گاہک انہیں خرید لیتی ہیں۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ان سیکس ٹوائز کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی مانگ ہے اور یہ ایک مہنگی انڈسٹری بنتی جا رہی ہے جس سے اگر ملک چاہے تو کثیر زرمبادلہ اور ٹیکس کما سکتا ہے۔