اس سے پہلے ٹائیگر فورس پر حکومت اور حزب اختلاف کی بے وجہ بحث جاری تھی اب ایک نئے سیاسی طوفان نے جنم لیا ہے حکومت کے اندر ہی رخنے پڑ گئے ہیں چینی اور گندم کی تحقیقاتی رپورٹ پبلک ہو ئی ہے۔اس پر شور مچا ہوا ہے۔ابھی فیصلہ باقی ہے یہ ابتدائی رپورٹ ہے۔وزیراعظم نے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینے کا عندیہ دیا ہے۔ دولت بذریعہ سیاست کا کھیل تو برسوں سےجارہی ہے۔ اجارہ دار اور سرمایہ دار ہمیشہ حکومت کے اپنے مفادات کے ساتھ چپکے رہے ہیں لیکن پاکستان میں پہلی بار اس طرح کی رپورٹ شائع ہوئی جس نے اپنی حکومت کا احتساب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اب کی صورت حال میں یہ بات تو کھل کر سامنے آتی ہے کہ احتساب کے عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا خواہ حکومت کے اپنے نمائندے کیوں نہ ہوں۔ساتھ ہی اس بات نے ابہام پیدا کیا ہے کیا احتسابی عمل کی ابتدا Reshuffling سے کی جا رہی ہے اگر تو اسے صائب تسلیم کیا جاۓ توکیا حکومت کا احتساب ایک عہدے سے ہٹا کر دوسرے عہدے دینا تک محدود ہے۔ بات اگر سبسڈی کی جاۓ تو یہ ایک حکومتی پالیسی ہے جس کے مطابق چینی ایکسپورٹ کرنے پر حکومت کی طرف سے تاجروں کو دی جاتی ہے اور سبسڈی اس صورت میں دی جاتی جب کوئی چیز مثلا چینی وافر مقدار میں موجود ہے جس سے اپنے ملک کی قلت بھی پوری ہوتی ہو۔تو اس صورت میں ایکسپورٹ ممکن ہے۔
خیر! فرانزک آڈٹ رپورٹ ابھی آنا باقی ہے اور یہ بھی دیکھنا باقی ہے احتساب کا عمل کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے۔ مافیا زکاا حتساب ضرور ہونا چاہیےلیکن اس وقت جس سنگین حالات سے قوم نبرد آزما ہیں معاشرے کا غریب طبقہ زبوں حالی کا شکار ہے افلاس منڈلا رہا ہے مائیں بچوں کو تسلیاں دے رہی ہیں وہ حکومت کے امدادی پیکج کے منتظر ہیں ارباب اختیار سے گزارش ہے غریبوں کا خیال کریں یاد رکھیں احتساب ہو نا ہے۔