زلزلہ، طوفان، سیلاب ہو، یا پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ یا پھر کرونا وائرس جیسی مہلک وبا۔ ان سب مختلف اور کٹھن حالات سے عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھنے والے مسیحا شاید آپ کو یاد نہیں۔ ہر دور میں ایک خاص ادارہ ہی ہمارا مسیحا رہا ہے، اب کی بار یہ ٹرینڈ بدلا ہے اور بہت اچھی بات ہے، اسے بدلنا بھی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس جیسی موذی مرض کیخلاف فرنٹ لائن پر کردار ادا کرنے والے ڈاکٹرز ہمارے ہیروز ہیں۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز بھی خراج تحسین کی مستحق ہیں، لیکن ہمیں شاید وہ مسیحا یاد نہیں جو انتہائی کم وسائل میں بھی اپنے حالات کی پرواہ کیے بغیر ہمیشہ ہر قسم کے حالات میں سب سے آگے رہتے ہیں۔ تاکہ عوام تک مکمل اور صحیح معلومات پہنچ سکے۔
بے شمار ایسے صحافی ہیں جو صحافتی میدان میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے لیکن ان مسیحاؤں کو ہم بھول گئے، بات یہاں تک ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن ان کی حوصلہ افزائی تو بہت دور الٹا ہم انہیں طوائف اور لفافہ خور تک کا سرٹیفیکیٹ دیتے وقت ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں سوچتے کہ دنیا بھر کے حالات سے ہمیں جو آگاہی ملتی ہے وہ انہی صحافیوں کی بدولت ہے۔
ایسے ہی ایک صحافی شکیل خان خٹک ہیں، جن کا تعلق ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے گاؤں ناصر آباد سے ہے، یہ 24 نیوز چینل میں بطور پروڈیوسر کام کر رہے ہیں۔ انہیں گذشتہ دنوں بخار ہوا اور بعدازاں ٹسٹ کروایا تو کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی، انہوں نے فوراً اپنے دوستوں اور گھر والوں سمیت جن جن سے ملاقات کی تھی انہیں فون کرنا شروع کردیے کہ مجھ میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے لہذا آپ بھی اپنا ٹیسٹ کروائیں۔
اسی دوران انہیں یاد آیا کہ ان کے والد صاحب ان سے ملنے لاہور آئے تھے اور پھر واپس گاؤں گئے تو ناصرف انہیں بلکہ شکیل کے مزید دو بھائیوں تک بھی کرونا پہنچ گیا۔ انتظامیہ نے ان کے گاؤں کو سیل کر دیا، اور شکیل خان لاہور کے میو ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ پانچ بھائیوں اور والدین کا اکلوتا کمانے والا یہ نوجوان صحافی اس صورت حال میں شدید پریشان ہو گیا اور انہیں طرح طرح کے خیالات آنے لگے کہ اب ان کے خاندان کا کیا بنے؟ پہلے تھوڑی سی تنخواہ سے بمشکل گزارہ ہو رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرف والدہ کو بے ہوشی کے دورے شروع ہو گئے جس سے ان کی پریشانی اور بڑھ گئی۔ لیکن اس عظیم صحافی کو ہسپتال کے بستر پر اتنی مشکل حالت میں بھی اپنی صحافتی ذمہ داری نہیں بھولی۔ میو ہسپتال میں جب ایک 70 سالہ بوڑھے محمد حنیف کو عملہ کے افراد نے رات گئے بیڈ سے باندھ دیا، متعدد بار ہسپتال انتظامیہ کو کالز کی گئی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور پھر بالآخر محمد حنیف ساری رات چیختے چیختے صبح انتقال کرگئے تو شکیل خان نے واقعے کی ویڈیو بنائی اور پنجاب حکومت کے جھوٹے دعوؤں کی کلی کھول دی۔
شکیل اب صحتیاب ہو کر گھر جا چکے ہیں۔ اسی طرح ایک اور امریکی صحافی کرس کوومو میں جب کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو انہوں نے اپنے انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ اب وہ اپنا پروگرام “کوومو پرائم ٹائم” سی این این پر گھر سے ہی کریں گے۔ ان مشکل اوقات میں جو کچھ دن تک زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہوتا دکھائی دیتا ہے، مجھے صرف اتنا پتہ چلا ہے کہ میرا کرونا ٹسیٹ مثبت آیا ہے۔ رپورٹنگ کے دوران حالیہ دنوں میں میرا واسطہ ان لوگوں سے پڑا جن کو بخار اور سانس کی تکلیف تھی، جن کے قریب جانے سے مجھے کرونا وائرس لاحق ہو گیا۔
اب ذرا غور کیجیے ان صحافیوں نے اس موذی مرض میں مبتلا ہو کر بھی اپنا کام نہیں چھوڑا، اور ہاں ہر پیشے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی پیشہ برا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں گذشتہ دنوں ایڈیٹر انچیف جنگ گروپ میر شکیل الرحمان کو ایک جھوٹے اور بےبنیاد کیس میں نیب نے گرفتار کیا، بغض کی آگ اتنی تھی کہ انہیں بڑے بھائی پبلیشر جنگ گروپ میر جاوید الرحمان جو بستر مرگ پر تھے ان سے ملنے تک نہیں دیا گیا۔ سینئیر صحافی حامد میر نے قلم حق بلند کیا تو ان کیخلاف سوشل میڈیا پر انتہائی نازیبا کمپین چلائی گئی کیونکہ ان کا بطور صحافی یہ جرم ہے کہ عام پاکستانی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔
کاش کہ ہمیں یہ سمجھ آجائے کہ صحافی تو عام عوام کا ہی ترجمان اور صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ اگر اس سے وابستہ ورکنگ جرنلسٹ کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کریں گے تو یہ ہم ان کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے آپ کے ساتھ ظلم عظیم کر رہے ہیں۔ سچے اور کھرے صحافی سے کبھی بھی کوئی حکمران خوش نہیں ہوتا کیونکہ وہ عام عوام کی آواز ہوتا ہے۔ اور عام عوام کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنی اس آواز کو مضبوط بنائیں۔ اور فوج، پولیس، ڈاکٹرز وغیرہ کے علاوہ یہ لوگ بھی قوم کے ہیروز اور مسیحا ہیں لہذا اس بات کو بھولنا نہیں بلکہ ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔