یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لازمی نہیں کہ وبا وہی ہو جو صحت اور جان کے لئے خطرہ ہو، بلکہ ہر وہ عمل جو معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جانے کے باوجود اسی معاشرے میں اپنی جگہ بنا لے وہ بھی وبا ہی کہلائے گا۔ ایسا ہی ایک عمل جس کا مرتکب معاشرے کا کم و بیش ہر دوسرا فرد ہے اور وہ اب معاشرتی ناسور کی صورت میں ایک وبا کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ وہ افواہوں، غیر مصدقہ خبروں اور کسی خبر کو من گھڑت الفاظ میں تشریح کر کے آگے پہنچانا ہے۔ آج کے اس تیز رفتار دور میں خبر کا آگ کی طرح تیزی سے پھیلنا کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔ ہر دوسرا شخص ہاتھ میں موبائل تھامے عکس بندی کرتا اور تبصرے کرتا ہوا خود کو اس ذمہ داری پر مامور تصور کرتا ہے کہ اس نے دنیا کو یہ خبر پہنچانی ہے اور اپنے ہی زاویے سے پہنچانی ہے۔ وہ فرد بزعم خود پھر اسی خبر کی تشہیر کے لئے تگ و دو میں لگ جاتا ہے اور اس طرح بات آگے چل نکلتی ہے۔
معاشرے میں ایک اور قباحت عود کر آئی ہے کہ مسئلہ دینی ہو، دنیاوی یا سماجی ہو، ہم نے من حیث القوم اس پر تبصرہ کرنا خود پر لازم کر لیا ہے۔ چاہے اس بارے ہمیں کوئی علم، عبور یا دسترس نہ بھی ہو تو بھی ہم نے بیان داغنے ہیں اور پھر دوسروں کو مجبور بھی کرنا ہے کہ وہ اس کو تسلیم کریں۔ تحریر کے لئے مشاہدہ بہت ضروری ہوتا ہے اور دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس مشاہدے کو یاد رکھنا۔
گذشتہ سال ہمارے ملک میں ڈینگی نے تباہی مچائی تو ایک نسخہ عام ہو گیا کہ پپیتے کا پانی پینے سے ڈینگی کا مرض دور ہو جاتا ہے، تو پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ہسپتال میں موجود ہر مریض کے پاس پپیتے کا پانی وافر پایا گیا۔ ڈاکٹروں نے صاف الفاظ میں منع بھی کیا مگر وبا کی طرح پھیلے اس نسخے کو لوگوں نے من و عن درست جانا اور آزمائش شرط ہے کہ اصول پر آنکھیں بند کر کے عمل شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مریض ڈینگی کے ساتھ ساتھ بدہضمی اور جلاب کا مرض بھی ساتھ لے بیٹھا۔ ایسی ہی کچھ صورتحال اب کرونا وائرس کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آ رہی ہے، نہ صرف مریضوں کے لئے نسخے بلکہ عموماً اس سے بچاﺅ کی کئی ایسی تدابیر بھی مشاہدے میں آئی ہیں کہ جن کو انسانی عقل ماننے سے انکاری تھی لیکن وبائی طور پر پھیلائے جانے کے باعث روبہ عمل ہو گئیں۔ بات یہاں بھی نہیں رکی، ہسپتالوں میں موجود مریضوں، بیمار و صحت یاب اور انتقال کر جانے والوں کی تعداد وبا سے متاثرہ لوگوں کا علاقہ حتیٰ کہ ان کے دینی و جماعتی وابستگی بھی اب ہر دو جگہ سے منظر عام پر لائی جا رہی ہے جس میں سے بیشتر مفروضوں پر مبنی ہے۔
مفروضوں اور قیاس آرائیوں کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور بات آگے سے آگے بڑھتی جا رہی ہے، باجماعت نماز پر فتویٰ اور حج کے روکنے کی مبینہ خبروں پر تاریخ کے حوالے، اللہ کے قہر اور حتیٰ کہ قیامت کی نشانیاں بھی اب گردش کرنے لگی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر گردش کرتی خبر جھوٹ پر مبنی ہے لیکن بالعموم ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
اب چونکہ ہم نے خود کو اس گرداب میں پھنسائے رکھنے اور ”گردش دوراں“ کو مزید طول دینے پر مامور کر لیا ہے تو چند گزارشات پیش خدمت ہیں جن کا حوالہ بھی ساتھ ہے۔ کچھ شبے کی بات نہیں کہ ہر انسان میں چھپا ”صحافی“ باہر نکلنے کو زور مارتا ہے کہ خبر لے کر آنا اس کو من وعن پہنچانا اور اس کو پھیلانا یہ انبیا علیہم اجمعین کے دور سے عمل میں لایا جا رہا ہے اور ثابت بھی ہے۔ اس زمانے میں بھی غلط خبروں کا پھیلاؤ مشاہدے میں آیا ہو گا۔ تو پھر ربِ کعبہ نے دو ٹوک انداز میں اس کام کو سرانجام دینے کا طریقہ بھی بتا دیا۔
اللہ پاک سورة الحجرات آیت نمبر 6 میں فرماتے ہیں۔ مفہموم:
”اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پشیمانی اٹھاو“
رب کریم کے ان دو ٹوک الفاظ کے بعد مزید کوئی تحریر معنی نہیں رکھتی لہٰذا حسبِ روایت کالم ادھورا چھوڑ رہا ہوں کہ کامل صرف اللہ کی ذات بابرکات اور اس کا قرآن پاک ہے۔