’عالم پناہ! آپ ہنسیں گے تو سب ہنسیں گے‘ ڈکٹیٹر ضیاء الحق سے بھرے مجمعے میں مکالمہ

02:46 PM, 9 Apr, 2021

عظیم بٹ
حال ہی میں قائمہ کمیٹی نے پاکستان کی افواج کے تمسخر اڑانے پر 5  لاکھ جرمانے اور دو سال جیل کی سزا کا اعلان کیا تو پاکستان بھر میں تمام سیاسی کارکنان کی جانب سے چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ کیا عزت بھی قانون کے اس زمرے میں آتی ہے جس کا پابند کروایا جائے گا؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی عام شہری اور کسی ادارے کے فرد کے مابین عزت کا فرق ہے؟ اگر فر ق ہے تو کن بنیادوں پر؟ کیا کوئی فوج سے تعلق نہیں رکھتا تو اس کی عزت میں کمی واقع ہو جائے گی؟ ایسے ہی خیالات اور سوالات کا اظہار پاکستان بھر سے صحافیوں سمیت سماجی و سیاسی کارکنان نے فیس بک، ٹویٹر سمیت مختلف جگہوں پر کرنا شروع کر دیا ہے دوسرا یہ کہ ادارے تو اور بھی ہیں جن پر تنقید ہوتی ہے مثلاً سب سے زیادہ پولیس اور اسی طرح، FIA، نادرہ، کسٹم الغرض تقریبا ہر ادارے ہی پر مختلف انداز میں تنقید ہوتی رہتی ہے تو پھر کسی ایک ادارے کا نام لے کر کیوں اسے تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے؟ اگر فوج میں ہونا اعزاز کی بات ہے تو باقی اداروں میں فرض کی ادائیگی کسی اہمیت کی حامل نہیں؟ کیوں نہ سارے اداروں کو فوجی لباس پہنا کر سب کے نام مٹا کر فوج رکھ دیا جائے؟یوں از خود سب کو وہی عزت و تحسین مل جائے گی جو ایک فوجی کو میسر ہوتی ہے؟

بل کے ذریعے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 500 میں ایک اور شق کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ جو کوئی بھی جان بوجھ کر پاکستان کی مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کا تمسخر اڑاتا ہے، عزت کو گزند پہنچاتا ہے یا بدنام کرتا ہے وہ ایسے جرم کا قصوروار ہو گا جس کے لیے دو سال تک قید کی سزا یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں جبکہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 500 میں پہلے ہی ہتک عزت کے خلاف سزا کا ذکر ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ’جو کوئی شخص کسی دوسرے کو بدنام کرے گا تو اس کو دو سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

کیا فوج کے سوا کوئی محب وطن نہیں؟ اگر ہاں تو پھر ایسے قوانین جس میں فوج ہی کو ساری افضلیت و عزت و حرمت دی جاتی نظر آتی ہے کیا یہ پڑھی لکھی قوموں کا وتیرہ ہے؟  اہم بات یہ ہے کہ اس قوانین پر اپوزیشن جو بظاہر اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلوا رہی ہے اور جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ان کا اور صحافیوں کا اس بل پر اعتراض تو ایک طرف ہے حکومتی وزیر فواد چوہدری بھی اس سے خفانظر آتے ہیں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر انہوں نے بھی ایسے قوانین جس میں زبردستی عزت کروائی جائے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اس سے قبل سینئر صحافی رضوان رضی، وجاہت مسعود نے بھی اس بل کی منظوری کے حوالے سے طنزیہ اور مستقبل پر اس کے خطرناک اثرات پر تبادلہ خیال کیا ہے رضوان رضی نے تو بل کے پاس ہونے کو پاکستان کے ایف اے ٹی ایف میں بلیک لس ٹ میں شامل ہونے سے جوڑ دیا ہے جبکہ وجاہت مسعود کی جانب سے یہ شکوہ کیا گیا ہے کہ نا تو ان کے پاس پانچ لاکھ ہے نا ہی وہ دو سال کی سزا بھگت سکتے لہذا وہ ٓئندہ یہ نہیں کہیں گے کہ ملک میں ایوب، ضیاء الحق، مشرف نے مارشل لاء لگا کر آئین شکنی کی ہے۔ایک بات دلچسپ یہ بھی ہے کہ نا صرف تحریک انصاف کے وفاقی وزرا بلکہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر اور میڈیا سٹریٹیجی کمیٹی کہ ممبر عبدالصمد یعقوب نے بھی واضح کیا ہے کہ    ایسے دستور کو صبح  بے نور کو میں نہیں مانتا اور ہم چند جرنیلوں پر تنقید کرتے رہیں گے۔

تفصیلات کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن امجد علی خان نے گزشتہ برس“کریمنل لا ایکٹ بل 2020”پیش کیا تھا جس کو اب پاس کردیا گیا ہے۔ اس بل پر ووٹنگ ہوئی تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی جس پر ووٹ برابر ہوگئے جس کے بعد چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ راجہ خرم نواز نے اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا اور مسودہ قانون کو منظور کروایا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بل کی بنا پر اگر کیس فائل ہونے لگ گئے تو عدالتوں میں کس قسم کی جرح ہو گی؟ عدالت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کی گئی پوسٹس پر کیا ہر شخص کی سوچ کا جائزہ لے گی کہ آیا اس شخص نے یہ تحریر تمسخر اڑانے کے لئے لکھی ہے یا حقائق بتانے کے لئے! سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عدالتوں پر ایسے کیسز کا کتنا دباو پڑے گا جبکہ ٓگے ہی زیر التوء مقدمات کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے ایک رپورٹ کہ مطابق سپریم کورٹ میں زیر التوء مقدمات کی تعداد 45673،لاہورہائیکورٹ188241،سندھ ہائیکورٹ81180،پشاورہائیکورٹ41200،اسلام آبادہائیکورٹ16064،بلوچستان ہائیکورٹ4822،وفاقی شرعی عدالت200کیسزہو چکی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں جب بھی جمہوریت اور آمریت کی بات ہوتی ہے تو آمریت میں ایک جنرل آمر ایسا تھا جس کو سب سے زیادہ برے انداز میں پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے موجودہ حالات سمیت پاکستان کی خارجہ معاملات میں مندی کو بھی جنرل ضیاء الحق سے جوڑا جاتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل ضیاء نے اپنے خلاف کبھی نا کسی کو لکھنے دیا نا بولنے دیا یہاں تک ہ کئی صحافیوں کو خلاف لکنے پر کوڑے تک مارے۔مگر مذاق کرنے کو اس سخت آمر تک نے نا روکا تھا اس نے ہر کسی کو خصوصا فنکارون کو خود پر لکھنے اور خود پر مذاخیہ ایکٹ کرنے کی پذیرائی کی۔

پاکستان میں کامیڈی میں شہنشاہ کا خطاب پانے والے مرحوم امان اللہ خان کا قصہ بہت مشہور ہے جو کہ وہ خود بھی کئی ٹیلی وژن شوز میں بیاں کر چکے کہ انہوں نے ضیاء الحق کے سامنے ان کا اور پوری آرمی کا مذاق اڑیا اور تاریک کہ اس سخت ترین آمر نے غصہ کرنا دور بلکہ امان اللہ کی تعریف کی۔۔۔واقع کچھ یوں تھا کہ امان اللہ مرحوم سمیت سہیل عزیز اس واقع کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اسی کی دہائی میں الحمرء کلچرل حال میں ضیاء الحق کو ایک پروگرام میں بلایا گیا جہاں امان اللہ خان کو ان کے سامنے کچھ مزاخیہ آئٹم پیش کرنا تھا لہذا ضیاء الحق چونکہ اس وقت چیف آف آرمی سٹاف تھے بلکہ ملک کے صدر بھی تھے لہذا ان کی شان کو ملحوظ خاطر رکھتے امان اللہ خان کو ضیاء الحق کہ آنے سے قبل آئٹمز دکھانے کا کہا گیا تا کہ ان میں سے کوئی دو منظور کئے جائیں لہذا امان اللہ خان نے کوئی پندرہ کہ قریب آئٹمز پیش کئے جس میں سے دو منظور کئے گئے۔ضیاء الحق جب ہال میں آکر بیٹھے تو ان کے ساتھ مکمل ہال سیاسی و عسکری قیادت سے بڑھ گیا لہذا امان اللہ خان کو اسٹیج پر بھیجا گیا اور جاتے ہی امان اللہ خان نے منظور کئے گئے پلے کی بجائے ہاتھ جوڑ کر ضیاء الحق صاحب سے کہا کہ عالم پناہ آپ ہمارے ملک کے سربراہ ہیں جان کی امان پاوں تو عرض ہے کہ یہ مجمعہ تب تک ہنسے گا نہیں جب تک آپ نہیں ہنستے لہذا مہربانی کریں اور ہنسیں۔۔۔اتنا کہنا تھا کہ ضیاء الحق صاحب قہقہ لگا کر ہنس پڑے اور ان کے ساتھ ہال بھر سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔ سہیل احمد کہتے ہیں اس کہ بعد امان اللہ نے اس ہال میں قہقہے رکنے نا دئیے اور ضیاء الحق کہ سامنے آرمی والوں کا مذاق کچھیوں اڑایا کہ آرمی والے چونکہ ڈسپلن کے بہت پابند ہوتے ہیں لہذا اگر ان کا دل کرے کہ وہ پتنگ اڑائیں تو وہ کیا کریں گے۔اس پلے کے ختم ہوتے ہی ضیاء الحق اپنی کرسی سے اٹھے اور پانہیں پھیلا دیں اور امان اللہ نے اسٹیج سے چھلانگ لگا کر ضیاء الحق کو گلے لگایا اس کے بعد سے ضیا ء الحق امان اللہ کو کئی بار ایون صدر مدعو کرتے رہے اور ان کی تعریف کرتے رہے۔مرحوام امان اللہ خان خود بتاتے تھے کہ کئی جرنیل ان سے اس لئے رابطے میں آگئے کہ امان اللہ ان کی نقل بہت اچھی اتارتا ہے جن میں جنرل چشتی،جنرل جیلانی،جنرل اقبال، جنرل رحیم وہ نام ہیں جو امان اللہ خان خود کئی ٹیلی وژن شوز میں لے چکے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ آمریت کا دور جس کو تاریخ کا سیاہ ترین دور کہا جاتا ہے جس دور میں ملک کے سب سے بڑے جمہوری لیڈر کو پھانسی لگایا گیا ملک میں بدترین آمریت قائم کی گئی وہاں بھی مذاق کی آزادی رہی مگر آج بظاہر ملک میں تیسرا جمہوری دور ہے جو کہ مسلسل انتقال اقتدار سے آیا ہے اوراس جمہوری دور میں ایسا بل یا قانون پاکستان کے مستقبل اور تاریخ میں کن لفظوں سے یاد کیا جائے گا یہ ایک اہم سوال ہے!
مزیدخبریں