انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح پارلیمان کی سپریم کورٹ کے کام میں مداخلت ٹھیک نہیں، اسی طرح پارلیمان کے کام میں سپریم کورٹ کی مداخلت ٹھیک نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ وہ مان لیتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا 3 اپریل کا فیصلہ اچھا نہیں تھا، مگر کیا سپریم کورٹ میں سارے فیصلے اچھے ہوتے ہیں؟
اسد عمر نے سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا اس عدالت کے فیصلوں کو عدالتی قتل نہیں کہا گیا؟
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اسمبلیوں کی بحالی کے فیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ ایک بار پھر قومی اسمبلی کی گیند میں ہے، جہاں آج ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن کی تحریک پر ووٹنگ کا امکان ہے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے ٹویٹر پر مطالبہ کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر فوراً ووٹنگ کرائی جائے۔
https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1512760535313715201?s=20&t=PfKqmsUwoW0M8AhvRgAVPw
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں باقی اپوزیشن لیڈروں کی طرح سپیکر سے ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ ووٹ کرائیں، ایسا نہ ہو ہم آپ کی خلاف بھی عدالت سے رجوع کریں۔
اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے دوبارہ یقین دلایا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں گے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ سیاسی یونیورسٹی صرف پیپلز پارٹی کے پاس ہے، ہمارے کافی طلبہ ادھر گئے ہیں ایک دن واپس آ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی لوگوں کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرتے بات کریں گے۔ ماسوائے ایک شخص کے اس طرف بیٹھے بہت سے لوگوں سے بات چیت ہوسکتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری کی طرح ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی وزرا اسد عمر، پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی گذشتہ رات کو اپوزیشن کے ساتھ ووٹنگ کے حوالے سے گفتگو میں شریک تھے۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنی تقریر میں حکومتی بنچز سے اٹھنے والے شور شرابے پر اعتراض کرتے ہوئے سپیکر کو مخاطب کیا کہ وہ شور شرابہ بند کروائیں۔ انہوں نے اپنی مختصر گفتگو کے آخر میں ایک مرتبہ پھر ووٹنگ کرانے پر زور دیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف سازش سات مارچ کو ہو رہی تھی، انہیں اس وقت غیرت جگانا چاہیے تھی۔ ہمیں کہتے عدم اعتماد لے کر نہ آئیں اس سازش کا حصہ نہ بنیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب لڑائی جمہوریت کے چاہنے والوں اور غیر جمہوری لوگوں کے درمیان ہے۔ لڑائی ہے نیوٹرول اور ان میں جو نیوٹرل نہیں رہنا چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سو مرتبہ کوشش کر لیں بھٹو نہیں بن سکتے، یہ سیاسی شہید نہیں بن سکتے۔ یہ پہلے بھی سلیکٹڈ تھے، پہلے بھی فیض یاب ہوئے۔ یہ اب بھی سلیٹ اور فیض یاب ہو کر آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی غیر جمہوری غیر آئینی تجویز سابق وزیر اعظم کو دی جا رہی ہے، وہ جمہوریت کو لپیٹنے کی سازش ہے۔ آمریت آئے تو آئے، کپتان اپنی ضد پر اڑا ہے۔ ہم چاہتے تو اسی عدالت سے عمران کو ناہل کراتے، دھرنا دیتے۔ ہم نے سوچا انہیں جمہوری آپشن سے ہٹائیں گے۔