ایک اعتبار سے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے اور وہ اس لئے کہ ہم بحیثیت قوم اس قسم کے فیصلوں کے عادی نہیں ہیں۔
ہماری عدالتی اور انصاف کی تاریخ تو جسٹس منیر، مولوی انوارالحق وغیرہ سے شروع ہو کر ثاقب نثار اور پانامہ بنچ پر ختم ہوتی ہے۔ اور جس ملک میں ہمارے جیسا نظام انصاف نہیں وہاں اس قسم کی آئین شکنی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
علامہ مغربی، آپ مغرب کی مثالیں دے کر تھکتے نہیں ہیں لیکن آپ کو مغربی جمہوریتوں کا اتنا علم بھی نہیں کہ جو کام آپ کے سپیکر، ڈپٹی سپیکر، آپ اور آپ کے صدر نے کیا، اگر یہی کام کوئی مغربی جمہوریت میں کرتا تو شاید مہذب اور قانون کی حکمرانی والے معاشرہ کے باوجود وہ اپنے آئین کے ساتھ اس قسم کا کھلواڑ برداشت نہ کر کے عدالتی انصاف کا انتظار بھی نہ کرتے، اور اب تک آپ اور آپ کے حواری قصہ پارینہ ہوتے۔
حضور، اگر آپ آکسفورڈ میں کرکٹ کھیلنے کے علاوہ کچھ پڑھتے اور لندن میں قیام کے دوران پلے بوائے نہ ہوتے، طاؤس و رباب کے علاوہ کسی سنجیدہ محفل میں بیٹھتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ دارالعوام کے سپیکر کی حیثیت کیا ہوتی ہے۔ وہاں سپیکرز بادشاہوں کے ہاتھوں کیوں قتل ہوئے، انہوں نے سپیکر کی غیر جانبداری اور دارالعوام کی عزت، حرمت اور وقار کے لئے جان کی قربانی دی۔ کیا وہاں کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ کتوں کی لڑائی کا شغل رکھنے والا، اپنے آپ کو آپ کی ٹائیگر فورس کا حصہ سمجھنے والا جعلی ووٹوں سے پارلیمنٹ میں پہنچنے والا اور عدالتی سٹے آرڈر پر ممبر بن بیٹھنے والا شخص بھلا ڈپٹی سپیکر جیسی معزز سیٹ پر بٹھایا جا سکتا ہے؟
آپ 2014 سے متعدد دفعہ اس قسم کی آئین کی پامالیوں کے یا تو سہولت کار رہے ہیں یا ہم رکاب، کیونکہ آپ نے صرف وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنا تھا، شاید اس لئے آپ ثاقب نثار دور انصاف کو ذہن میں رکھتے ہوئے رعایت و عنایت کی توقع کر رہے تھے۔
شاید آپ یہ بھول بیٹھے تھے کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدلتا ہے۔ اس لئے 8 اپریل کی رات والی تقریر میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ نے اپنی تقریر میں اس مبینہ بیرونی سازش کی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ رٹ لگائے رکھی جس کو بنیاد بنا کر ڈپٹی سپیکر نے اپنی بدنام زمانہ رولنگ دی اور سپریم کورٹ نے اس کو غیر آئینی قرار دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی شکایت کی کہ سپریم کورٹ کو اُس مبینہ سازش کو بھی دیکھنا چاہیے تھا۔
اب اس علامہ مغربی کو کون سمجھائے کہ شہنشاہ اعظم، سپریم کورٹ جاسوس ادارہ نہیں ہے کہ وہ از خود ثبوت جمع کرتا پھرے اور نہ اب اس عدالت میں ثاقب نثار بیٹھا ہے کہ جے آئی ٹی بنائے اور نہ آپ ان طاقتوروں کے اس وقت لاڈلے ہیں جو اس جے آئی ٹی کو چلا رہے تھے اور دس والیومز میں سے اقامہ نکال رہے تھے۔ اب حالات بدل گئے ہیں اور بار ثبوت آپ پر ہے اور جو ثبوت آپ نے جمع کیے تھے ان کی حیثیت ردی سے زیادہ نہیں تھی۔
علامہ مغربی، آپ جس عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے رہے ہیں، یہ آپشن تو اپوزیشن میں دو سالوں سے کسی نہ کسی سطح پر زیر غور تھا۔ پی پی پی اور اے این پی اس کے حق میں تھیں اور پی ڈی ایم کی باقی پارٹیاں اس کے خلاف۔ کیونکہ کسی فیض کی برکت سے اپوزیشن کی اکثریت اقلیت میں بدل دی گئی تھی اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کو ناکام بنا دیا گیا۔ لیکن نومبر 2021 سے اسلام آباد بے فیض ہو گیا اور بڑا بھائی نیوٹرل، کیونکہ آپ ان کے لئے محض بوجھ، ذلت و رسوائی اور ملک کی تباہی کا سبب بن رہے تھے۔ اپوزیشن کو تو پتہ تھا کہ آپ کے پیروں کے نیچے زمین اپنی نہیں ہے اور اس وقت سے ایک بار پھر عدم اعتماد پر کام شروع ہو گیا۔
اب یہ تو کوئی راز ہے نہیں، دیوار پر لکھا ہوا ہے کہ آپ کے پاس عوام میں جانے کے لئے کچھ نہیں ہے، سوائے عوام کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھیلنے کے اس فسطائی اور شیطانی ہتھکنڈے کے۔
کیونکہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کسی نظریے یا عوامی پروگرام کے زور پر نہیں بلکہ بے دریغ یکطرفہ پراپیگنڈے کے زور پر کسی کے کندھوں پر بیٹھ کر کرسی تک پہنچے ہیں، اور آپ اس کو دہرانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا یہ اب ممکن ہے اس ہاتھ ، کندھے اور میڈیا کے بغیر جس نے آپ کے گناہ کو نیکی بنا کر عوام کو بے وقف بنانے کے لئے پیش کیا؟
حضور، شاید تاریخ میں آپ پہلے وزیر اعظم ہیں کہ اپنی حکومت کے آخری دن ٹی وی پر بیٹھ کر عوام کے سامنے اپنے اپوزیشن دور کے قصے سنا رہے تھے۔ کہ آپ نے ڈرونز اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے مخالفت کی۔ حضور، اب یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ آپ یہ کیوں اور کس کے کہنے پر کرتے تھے۔ اور وہ بھی ٹانک میں کھڑے ہو کر میڈیا پر کہہ رہے تھے کہ وزیرستان پہنچ گیا ہوں۔
آپ کی پارٹی نے پونے نو سال ایک صوبے پر حکمرانی کی اور پونے چار سال مرکز میں حکمران رہی، اس دوران آپ نے کیا کیا ہے، عوام آپ سے وہ سننا چاہتے ہیں۔
حضور، اب آپ کے بولنے کا وقت گزر گیا ہے۔ اب آپ کو جوابات دینے ہیں قوم کو۔ آپ نے پھچلے ایک عشرے سے طاقتوروں کے کندھوں پر سوار ہو کر صرف دوسروں پر الزامات لگانا، بہتان تراشی اور کردارکشی کرنا ہی سیکھا ہے، ماضی بعید تو چھوڑیے، جب سے آپ نے سیاست شروع کی، آخری ایک عشرے میں تو آپ نے کوئی باعزت بندا نہیں چھوڑا۔ آپ کا اپنا ذاتی اور اخلاقی اور سیاسی عمل کیا تھا؟
یہ سوال اس لئے پوچھنا چاہیے اور آپ کو جواب دینا چاہیے کیونکہ آپ بیک وقت جو دو ماڈلز کی مثالیں دیتے ہیں۔ مثلاً مغربی جمہوریت اور ریاست مدینہ کی رو سے عوام کو حق حاصل ہے کہ ذاتی، اخلاقی اور اجتماعی سیاسی عمل کی پڑتال کرے۔ مغربی اصولوں کے تحت، 'Personal is political, and political is personal'۔ اس کے برعکس ریاست مدینہ ماڈل کے لیڈر کے ذاتی اوصاف تو پھر بہت اعلیٰ و ارفع ہونے چاہئیں۔
کیا اس اصول کے تحت آپ اپنے سابق قریب ترین ساتھیوں کے الزامات کے جواب دیں گے، خصوصاً خاتون اول اور ان کی سہیلی فرح گوگی کی کرپشن کے متعلق؟ کیا اس پر اس طرح تحقیقات، تفتیش اور مقدمات نہیں ہونے چاہئیں جس طرح آپ نے اپنے سیاسی مخالفین کے کیے تھے؟
ریاست مدینہ کے معمار کو تو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہونا چاہیے، لیکن جب آپ 2014 میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر ایک طرف آزادی اور ریاست مدینہ کی باتیں کرتے تھے، اس تقریر کے بعد اس کنٹینر کے اندر کیا کرتے تھے؟
آپ اگر مزید ذلت اور رسوائی سے بچنا چاہتے ہوں، اور اس ملک کو اور تباہی و بربادی کی طرف نہیں دھکیلنا چاہتے تو اس قسم کی سیاست سے باز آ جائیں۔ اس سادہ لوح عوام کے سیاسی اور مذہبی جذبات کے ساتھ مزید کھلواڑ مت کریں۔ آپ کی مراد صرف وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنا تھی سو بیٹھ گئے، جس کی ملک و قوم نے بہت بڑی قیمت چکائی۔ شاید وہ طاقتیں ہمیشہ آپ کی پشت پر کھڑے نہیں ہوں گی جو آپ کے گناہ بھی نیکی کے طور پر پیش کرتی تھیں۔