سب جانتے تھے کہ وہی برسوں پرانی کہانی ہو گی، پہلے پتلیوں کا رقص اور پھر ایک بادشاہ کی آمد جسکا نام مرشد شاہ تھا، بھدا، زرق برق لباس میں ملبوس، گلے میں موتیوں کے ہار اور سر پر تاج، اسکا وزیر لمبا پتلی نوکدار مونچھوں والا جسکا نام منمنا وزیر تھا، چند درباری اور دیگر کچھ لوگ۔ جونہی بادشاہ کی آمد کا اعلان ہوتا وہ جھپاک سے اپنے منمنے وزیر کے ہمراہ لوگوں کی تالیوں میں نمودار ہوتا۔ دربار لگتا اور درباری بادشاہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے، نذرانے پیش کرتے اور اپنی اپنی جگہ ایستادہ ہو جاتے۔
بادشاہ اپنے درباریوں سے اپنے گاؤں کے حالات معلوم کرتا سارے درباری یک زبان ہو کر بتاتے کہ گاؤں کا کونہ کونہ چمک رہا ہے، لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں، ایسے میں اچانک ایک فریادی روتا ہوا کہیں سے نمودار ہوتا اور چلاتا ''مرشد شاہ پورا گاؤں مشکلوں میں گھرا ہے، کہیں کھیت اجڑ گئے، کہیں آگ نے گھر جلا دئیے، کہیں بھیڑیوں نے حملہ کر کے لوگوں کو زخمی کر دیا اور کہیں لوگوں کے جانور چوری ہو گئے۔'' بادشاہ پوچھتا یہ کون ہے اور درباری اس پر پل پڑتے اور بادشاہ کو یقین دلاتے کہ یہ آدمی ہمارے دشمنوں سے تعلق رکھتا ہے۔ بادشاہ فریادی کی بات سے اتنا مکدر ہو چکا ہوتا کہ اپنے منمنے وزیر کو لیکر باہر نکل جاتا اور اعلان ہوتا کہ بادشاہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی اس لئے وہ باغیچے میں ٹھنڈی ہوا کھانے چلا گیا اور پردہ گر جاتا جب دوبارہ پردہ اٹھتا تو سارے درباری گیت کی دھن پر رقص کرتے نظر آتے اور اسطرح یہ پتلی تماشہ اپنے اختتام کو پہنچتا اور لوگ آپس میں ہنستے کھیلتے گھروں کو چلے جاتے۔
رگھو پتلی باز برسوں سے یہ تماشہ کرتا آ رہا تھا، وہ مورتیاں بناتا اور ساتھ ساتھ پتلیاں بھی، انہیں بناتا سنوارتا انکا ایسے ہی خیال رکھتا جیسے کوئی باپ اپنی اولاد کا اسکے آگے پیچھے کوئی نہ تھا اور اسکی کل کائنات یہی پتلیاں تھیں، مرنے سے پہلے وہ اس پتلی گھر کو اپنے دوست بالے کو سونپ گیا تھا۔ بالا بھی اس دنیا سے جا چکا تھا اور اب یہ کام اسکے بیٹے فیکا اور شالو کر رہے تھے۔
اتنے برسوں میں نہ کوئی نئی پتلی بنی اور نہ ہی نئی کہانی۔ فیکے اور شالو نے جب یہ کام شروع کیا تو انہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ رگھو اور بالا کس طرح ہر بار ایک نئی کہانی لیکر آتے تھے اور پھر انہوں نے سوچا کہ لوگوں کو بادشاہوں کی کہانیاں اچھی لگتی ہیں سو اپنی سمجھ کے مطابق ایک کہانی گڑھ ڈالی اور اب برسوں سے یہی کہانی اس گاؤں کا حصہ بن چکی تھی،پتلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھیں مگر دونوں بھائی دھاگوں سے باندھ کر، لئی سے انکے بازو چپکا کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔
دن ڈھلنے لگا تھا، لوگ دھیرے دھیرے برگد کے درخت کے گرد جمع ہونے لگے تھے جہاں یہ تماشہ ہونا تھا۔ پتلی گھر بنایا جا چکا تھا،لیکن اس بار ہمیشہ کی طرح ا لوگوں کو گاؤں کا حوالدار نظر نہیں آرہا تھا، جو ہر پتلی تماشے میں آتا خاموشی سے تماشہ دیکھتا، ایک روپیہ دیتا اور اسی طرح چپ چاپ اٹھ کر چلا جاتا۔
تماشہ شروع ہوچکا تھا بوسیدہ پتلیاں رقص دکھا چکی تھیں اور بادشاہ کی آمد کا اعلان ہوچکا تھا۔ لوگ چونکے اس وقت جب انہوں نے ایک ٹانگ کا بادشاہ دیکھا، نہ اسکے سر پر تاج تھا اور نہ ہی گلے میں ہار۔ درباری اسی طرح سجدہ ریز ہوئے ،اور اس سے پہلے کہ بادشاہ درباریوں سے ''سب ٹھیک ہے'' کی رپورٹ لیتاـ اچانک روتا ہوا فریادی دہائی دینے لگا، بادشاہ اپنی اکلوتی ٹانگ پر کھڑا ہو کر دہاڑنے لگا، درباریوں کو لعن طعن کرنے لگا اور لوگوں کا جوش اور حیرت اس لعن طعن کا ساتھ دینے لگی اور تو اور منمنا وزیر بھی آج سینہ تان کر درباریوں کے خلاف بول رہا تھا۔ درباری رو رہے تھے اور بادشاہ انہیں اپنی اکلوتی ٹانگ سے اچھل اچھل کر مار رہا تھا، گاؤں والے آوازیں لگا رہے تھے اور مارو سالوں کو اور مارو اور اچانک بادشاہ منظر سے غائب ہو گیا۔ لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑنے لگا انہیں پتہ تھا کہ اب اعلان ہوگا کہ بادشاہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے باغ کی سیر کو جا چکا ہے مگر یہ کیا؟ وزیر تو اپنی جگہ پر تھا، درباری ادھر ادھر پڑے تھے وزیر کا سر اسکے سینے سے لگ گیا تھا۔” میرے دوستوں، آپ سب برسوں سے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں اور آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس تماشے میں کوئی نئی بات کیوں نہیں آتی۔ آج کے بعد آپکو نئی پتلیاں اور نئی کہانیاں ملیں گی،“ پتلی گھر کے اسٹیج پر کپڑے کا گڈا نہ جانے کہاں سے آگیا تھا اور جھوم جھوم کر اعلان کر رہا تھا، آج اس کی آواز بھی بدلی ہوئی تھے اور ہاتھوں کے اشارے بھی۔ اور آج بغیر درباریوں کے رقص پردہ گر گیا۔
لوگ متجسس تھے کہ یہ کیا ہو گیا، اور ایکدم ایک آدمی بول اٹھا ارے فیکا اور شالو تو یہ بیٹھے ہیں! تو پھر یہ تماشہ کون کر رہا ہے؟ جب کچھ لوگ پتلی گھر کے پیچھے پہنچے تو دیکھا انکا خاموش طبع حوالدار ڈوریاں لپیٹ رہا تھا اور پتلیاں سمیٹ رہا تھا!