بھٹو دور میں وزیر اعظم کے فون ٹیپنگ کا واقعہ
گو کہ آفتاب اقبال کا الزام ہے کہ آصف علی زرداری انکی ریکارڈنگ سے بچنے کے لیے یہ سب کر رہے تھے تاہم پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں وزیر اعظم جیسے با اختیار عہدے کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بھٹو صاحب غور سے سن رہے تھے۔ شاید میں انہیں بہت سنجیدہ لگا ہوں گا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘
’میں آپ کو یہ کہنے آیا ہوں کہ آپ دوبارہ سے عوام میں اپنی طاقت کو بحال کرنے کی کوشش کریں‘
وہ چند لمحے کے لئے رکے اور پھر گویا ہوئے، ’ڈاکٹر، جو تم مجھے کرنے کے لئے کہہ رہے ہو، میرے میں وہ کرنے کی طاقت نہیں ہے‘
میں پاکستان کے ذہین ترین اور ملکی تاریخ کے طاقتور ترین وزیر اعظم کے یہ الفاظ سن کر ٹوٹ کر رہ گیا۔ ہم دونوں کافی دیر خاموش بیٹھے رہے۔
خاموشی توڑتے ہوئے میں نے پوچھا، میں ذرا آپ کا فون دیکھ لوں؟ میں نے ٹیلی فون اٹھایا، اپنی جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا، کچھ پیچ ڈھیلے کیے اور اندر سے ایک ٹکڑا نکال کر بھٹو صاحب کی طرف بڑھایا۔
’کیا آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے؟‘ میں نے ان سے پوچھا۔
’نہیں۔ کیا ہے یہ؟‘ انہوں نے جواب دیا۔
’یہ آپ کے فون کو ریکارڈ کرنے کے لئے ہے‘۔
’یہ حرامزادے میرا بھی کرتے ہیں؟‘ انہوں نے یکلخت جواب دیا۔
ایک اور لمبے وقفے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ کہ یہ ریکارڈ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنے فون میں ایسا ہی ایک آلہ دیکھا تھا اور اسے ایک ایکسپرٹ کو دکھایا تھا جس نے اسے کھول کر بتایا تھا کہ یہ ریکارڈنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ہر ایک پر ایک علیحدہ نمبر ہوتا ہے۔
کچھ توقف کے بعد انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو بلایا۔ نصرت آئیں تو انہوں نے یہ آلہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ مبشر کے مطابق یہ میرا فون ریکارڈ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلب کے آگے اس آلے کو رکھ کر کچھ معائنہ کرنے کے بعد بیگم صاحبہ نے کہا کہ یہ تو گھر کے تمام فونوں میں ہے۔
بھٹو صاحب بھونچکے رہ گئے اور ایک وقفے کے بعد اپنی بیوی سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا؟
انہوں نے جواب دیا: ’’مجھے نہیں پتہ تھا۔ شاہنواز کو اس کے کمرے والے فون میں ایک آلہ ملا تھا اور اسے لگا کہ آپ نے لگوایا ہے تاکہ اس کی گرل فرینڈز سے اس کی بات چیت کو سن سکیں۔ اس نے پھر تمام ٹیلی فون کھول کر دیکھے اور جب اسے سب میں یہ نظر آیا تو وہ مطمئن ہو گیا‘‘۔
ہم سب کافی دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر میں نے واپسی کی اجازت چاہی۔ یہ بھٹو صاحب کے ساتھ میری سب سے زیادہ افسردہ کر دینے والی ملاقات تھی۔ جو بھٹو نے کہا تھا وہ ماننا مشکل تھا۔ کیا اس کی سطح کا کوئی وزیر اعظم اتنا کمزور، اتنا بے آسرا ہو سکتا تھا یا پھر وہ صرف مجھے چپ کروانے کے لئے ایسا کہہ رہے تھے؟ میں نے پہلی بار انہیں تنبیہ نہیں کی تھی۔ 17 اگست کو لکھے گئے خط میں بھی میں نے انہیں ان کی پالیسیوں کے تسلسل کی صورت میں فوجی مداخلت اور بربادی کے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ بھٹو صاحب کا یہ کہنا کہ جو میں انہیں کرنے کو کہہ رہا تھا، اس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، بالکل نیا تھا۔ وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے والے شخص نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی یہ کہہ کر انہوں نے میرے دل میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کر دی تھی۔ ان کی مدد کیسے کی جا سکتی تھی؟ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے اس اداس شام میرے دماغ میں بس یہی ایک سوال گردش کر رہا تھا۔
یاد رہے کہ بینظیر بھٹو اپنے سیاسی کریئر کے دوران ایجنسیوں کی جانب سے اسی قسم کی جاسوسی کی شکایت کرتی تھیں۔ پاکستانی تاریخ میں سیاستدانوں کے فون ٹیپ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ماضی میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اور ریاستی اداروں پر جاسوسی کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔