سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جتنا عرصہ، موقع اور اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کو 2008 سے 2023 تک ملا جس میں 5 سال وفاقی حکومت کے بھی ہیں، اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔
15 سالہ سندھ میں بلاشرکت غیرے اقتدار کے بعد سندھ کے عوام، پیپلز پارٹی کے ووٹرز نے کیا پایا کیا کھویا، کا حساب کراچی سے لے کر کشمور تک سندھ کے ہر شہر، ٹاؤن اور گاؤں کی حالت زار سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔
اقتدار کے اتنے طویل عرصے، اربوں روپے ترقیاتی اور تقریباً اتنی ہی رقم غیر ترقیاتی منصوبوں پر لگانے کے باوجود سندھ میں کوئی بھی ایسا شعبہ، محکمہ اور سیکٹر نہیں جس میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہو۔ صحت، تعلیم، امن و امان، فراہمی و نکاسی آب جیسے انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے بنیادی شعبے ابتری، بربادی اور تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
سندھ کا کوئی شعبہ، محکمہ، شہر، گاؤں ایسا نہیں جسے انسانی ترقی کے حوالے سے آئیڈیل قرار دیا جا سکے۔ 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بقایا کی زندگی بھی کوئی خاص نہیں ہے، ماسوائے اپر کلاس کے مراعات یافتہ حکمران طبقے کے۔ سندھ میں شہری ہو یا دیہی کاروباری طبقہ ہو یا پروفیشنل، ملازمت پیشہ ہو یا عام شہری؛ سب اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سندھ میں ناکامیوں کی طویل لسٹ کے ساتھ چند ہفتے قبل تک پیپلز پارٹی پراعتماد تھی کہ وہ سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی حکومت بنائے گی اور کے پی، پنجاب میں بہتر پوزیشن کے ساتھ مرکزی حکومت میں اہم پوزیشن حاصل کر کے پارٹی کے سربراہ آصف زرداری کی خواہش کے عین مطابق بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنوانے میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔
لیکن گذشتہ چند ہفتوں سے جس طرح حالات نے کروٹ بدلی ہے اور پے در پے واقعات پیش آئے ہیں انہوں نے پیپلز پارٹی کی مرکزی اور سندھ کی قیادت کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
دیرینہ سیاسی رفیق مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی کی جانب سے پیپلز پارٹی سے اچانک راستے الگ کر دینا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اہم سیاست دانوں کی جانب سے اچانک پارٹی میں شمولیت سے انکار کرنا، سندھ ہائیکورٹ کا محکمہ پولیس اور اس کے سربراہ کو بااختیار کرنے کا فیصلہ، آئندہ انتخابات نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت کروانے کے فیصلے، اچانک سندھ کے اینٹی کرپشن محکمہ کا سندھ اسمبلی اور محکمہ لیبر کے خلاف کارروائیوں کا آغاز جس کا براہ راست نشانہ حکومت کے اہم ستون سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور صوبائی وزیر سعید غنی ہیں، ایک اہم کمائی والے محکمہ سے تعلق رکھنے والے مشہور سرکاری افسر جسے بڑے سیاسی رہنماؤں کی اے ٹی ایم مشین کے طور پرشہرت حاصل ہے، کے اچانک غائب ہونے اور اسی طرح کے کچھ ظاہر اور پوشیدہ معاملات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کے بدلتے موڈ کا اندازہ ہو رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے حلقے ان تمام معاملات کو ان کو استعمال کرنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینکنے سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ ان کے مخالفین اس کو مکافات عمل سمجھتے ہیں۔
سیاسی حلقے سابق صدر آصف زرداری کے اچانک خاموش اور گوشہ نشین ہونے کو اسی ڈویلپمنٹ سے تعبیر کر رہے ہیں۔
سندھ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ بظاہر تو پیپلز پارٹی کے لئے سب اچھا نظر آ رہا ہے، کوئی قابل ذکر سیاسی حزب اختلاف نہیں ہے، قوم پرست جماعتیں اپنے روایتی محدود دائرے میں ہیں، لیکن اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی کے لئے سب اچھا نہیں ہے اور 15 سالہ بلاشرکت غیرے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔