میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔!
تعلیمی اداروں میں حصولِ علم کے لیے آنے والے طلباء کی طرح مجھے بھی اپنی یونیورسٹی سے والہانہ محبت اور دلی لگاؤ ہے. میرا پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ اس کے در و دیوار، گراؤنڈز، ہاسٹل، کلاس رومز، ہاسٹل کے کمرے، مسجد اور میس ہال سے میرا ایک روحانی رشتہ قائم ہے۔
اس جامعہ میں ملازمت کرنے والے اساتذہ، کلرک، خاکروب، مالی، سیکیورٹی گارڈز اور کینٹینوں پر کام کرنے والے محنت کشوں سب کے ساتھ ایک خوبصورت اور خاندانی رشتوں سا رشتہ ہے۔
https://twitter.com/ammaralijan/status/1199590183638843392?s=20
یہی وجہ ہے کہ اس جامعہ میں تقریباً سات سال گزارنے کے باوجود میرا کسی سے بھی لڑائیجھگڑا حتیٰ کہ تلخ کلامی تک نا ہوئی۔ شاید میرا جرم یہ تھا کہ میں ہر اس ناانصافی پر آواز اٹھانے کی کوشش کی جس کا سامنا اس جامعہ میں پڑھنے اور رہنے والے ہر عام انسان کو کرنا پڑتا ہے اور آواز اٹھانے کے اس عمل کو سیاست قرار دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسکی حالیہ مثال مجھے میری اس جامعہ سے نکالا جانا ہے۔ اور جس جرم کی پاداش میں مجھے ایک ناپسندیدہ طالب علم قرار دیا گیا اسکی وجہ یہ تھی کہ میں نے اور میرے جیسے چند سر پھر وں نے یونیورسٹی میں بسوں کی کمی کے خلاف احتجاج کیا، جسے یونیورسٹی کو بدنام کرنے اور سیاسی سرگرمی میں ملوث پائے جانے پر موردِ الزام ٹھہرا تے ہوئے میرے یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=dFV0TzN2YEg&t=88s
میں نے اس جامعہ میں تقریبًا سات سال گزارے جس دوران تین ڈگریاں کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے سیاسیات میں پوزیشن کے ساتھ ایم اے، بعد میں ایم ایس سی سوشیالوجی، اور پھر ایم فل پاکستان سٹڈی میں داخلہ لیا۔ کچھ معاشی حالات کی وجہ سے فیس ادا نہ کر سکا، جس کی بناء پر میری ایم فل کی ڈگری لیٹ ہوتی گئی۔
تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتا رہا اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ مجھے تین شعبوں، ڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹس افئیرز اور ہاسٹل کی سیاست کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ جن میں اساتذہ کی آپسی سیاست، آسا کے الیکشن میں جوڑ توڑ، ایک طلبہ تنظیم کی اجارہ داری، کونسلز ، انتظامیہ اور جمیعت کے جھگڑے، انتظامیہ کا اپنے مفادات کیلئے طلبہ کا استعمال، معصوم طلبہ پر انتظامیہ کا ذہنی اور ایک تنظیم کا جسمانی تشدد بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
24181/
مگر میں صرف دیکھتا رہا کیونکہ ان تمام پر سوال کرنا جامعہ میں سیاست کرنے کے مترادف تھا اور چونکہ ہمیں ایک غیر قانونی ایفی ڈیوڈ کے ذریعے سیاست سے دور رہنے کا حلف نامہ لیا جاتا تھا۔ اور ان تمام پر سوال اٹھانا جامعہ کو بدنام کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میری جامعہ کی ایک لڑکی بس میں جگہ نا ہونے کے باعث اس پر چڑھتے اسکے نیچے آ کر مرگئی۔ مگر میں اسکی موت کا ذمہ دار اس نظام کو نا ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میں اپنی بہن کے ساتھ یونیورسٹی گراؤنڈ میں بیٹھا تھا تو ایک تنظیم کے نوجوانوں نے آکر ہمیں دھمکیاں دیں، اور ہمیں انہیں بہن بھائی ثابت کرنے کیلئے اپنے شناختی کارڈز دکھانے پڑے۔ اس شرمندگی کا ذمہ دار میں اس نظام کو نا ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=jat86JXLgtQ&t=10s
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب اے پی ایس واقعے کے بعد میرے سمیت بہت سے طلبہ کو ہاسٹلز سے نکال دیا گیا، اور میں نے رشتہ داروں کے گھروں رہ کر اپنی سردیاں گزاریں، فاٹا ، بلوچستان، سندھ اور دور دراز سے آئے طلبہ نے سڑکوں پر راتیں گزاریں مگر میں اسکا ذمہ دار اس نظام کو نا ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میں اپنی بہن کے ساتھ ایڈمن بلاک جارہا تھا تو اسی دن پشتون کلچرل ڈے پر حملہ کیا گیا۔
گروپوں کے تصادم میں پولیس کی آنسو گیس نے میری بہن کی آنکھوں کو تکلیف پہنچائی مگر میں اسکا ذمہ ذار کسی کو قرار نا دے سکا، کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب سوشیالوجی کی کلاس میں فیس جمع نہ کروانے پر مجھے بھرے کمرہ امتحان سے نکال دیا گیا، اس سلوک پر میں سوال نا اٹھا سکا ، کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میرے استاد عمارعلی جان یونیورسٹی کلاس پڑھانے آئے تو اِنھیں معلوم ہوا کہ انھیں نکال دیا گیا ہے۔ میں اپنے استاد کی ایسی بیعزتی پر سوال نہ اٹھا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔
24952/
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میری کلاس فیلو نے مجھے خود کے ساتھ ہونے والی جنسی حراسانی کی دکھ بھری کہانی سنائی، مگر میں اسکی مدد نہ کر سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میری بہن کو ہاسٹل لیٹ آنے پر اسکی وارڈن نے وہ جملے کہے جو شاید ایک بھائی نہ سن پائے مگر میں اسے کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔
25272/
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن میرے انتہائی شفیق استاد ڈاکٹر اقدس علی کاظمی کو چھے ماہ کی تنخواہ دئیے بغیر ایک نوٹس کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا۔ میں اپنے استاد کے اُس دکھ کا ازالہ نا کر سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میں نوکری کا انٹرویو دیکر ہاسٹل واپس آرہا تھا تو روڈ پر پولیس کی گاڑیاں کھڑی دیکھ کر پتہ چلا کہ ہاسٹل میں ایک لڑکی نے خود کشی کر لی مگر بے بس ہو کر میں نے اپنی موٹر سائیکل آگے نکال لی ، میں اس خود کشی کا ذمہ دار اس نظام کو نا ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کر سیاست ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دل دہلا دینے والی رات جب میں اور میرا دوست عظمت برکت مارکیٹ سے واپس آرہے تھے تو یونیورسٹی کے ہاسٹل روڈ پر ہاسٹل نمبر ایک کے درزی کی خون سے لتھڑی لاش پڑی تھی۔ مگر کوئی سی سی ٹی کیمرہ آج تک اُس محنت کش نوجوان کے قاتل کا سراغ نہ لگا سکا۔ میں ایسی سیکیورٹی پر سوال نا اٹھا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔
یہ وہ یاداشت ہے جو شاید اس یونیورسٹی کے تمام طلباء کی ہے۔ مگر چونکہ من حیث القوم بھلکڑ ہیں اور تاریخی کم ظریفئ وقت ہے کہ پچھلے مسئلے کو بھلانے کے لیئے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہر دفعہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے سارا ملبہ ان پر پھینک دیا جاتا ہے جنہیں سیاست کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ نظام ہے جہاں وی سی آفس سے لیکر خاکروب کے سٹور روم تک میں سیاست ہوتی ہے، مگر جن کی بناء پر ہورہی ہے انکی سیاست ممنوع ہے۔ اس تاریخی اور خوبصورت جامعہ کو کارخانہ بنا دیا گیا ہے جہاں سے نیو لبرل اکانومی کو چلانے کیلئے روبورٹس اور مشینیں تیار کی جاتی ہیں۔ تنقیدی، تعمیری اور تخلیقی سوچ کو دبایا جاتا ہے۔اور کھلی فضاء کے ماحول کو گُھٹن زدہ کال کوٹھڑی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بقول بیدل حیدری ؎
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدل لباس زیست بہت دلفریب تھا
پر ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
شاید میں نے اس جامعہ سے وہ سیکھا جو کوئی نا سیکھ سکا۔ مجھے یہ تمام سوالات اٹھانا میری اسی جامعہ نے سکھایا ہے، اس ظلم کے خلاف بولنا بھی اسی جامعہ نے سکھایا ہے۔ ظلم و بربریت کے اس نظام کے خلاف بغاوت بھی اسی جامعہ نے سکھائی۔ اس نظام کو بدلنے کا عزم ہمت اور حوصلہ بھی اسی جامعہ نے دیا کیونکہ میری یہ جامعہ مجھے صرف پڑھنا نہیں سوچنا سکھاتی ہے۔ مجھے سکھاتی ہے کہ اپنے حقوق کیلئے سیاست کرنا از حدضروری ہے ۔ تا کہ یہ جامعہ تنقیدی اور تخلیقی سوچ پیدا کر سکے۔ جہاں سب کو مفت اور معیاری تعلیم مل سکے۔ جہاں کوئی خود کشی نا کرے۔ جہاں سب کو ہاسٹل مل سکیں ، جہاں سوال کرنے کی آزادی ہو، جہاں اساتذہ کو عزت دی جائے، جہاں تمام کی بہنیں جنسی حراسانی سے محفوظ رہیں، جہاں نئے ادیب، شاعر، سیاستدان، انجئییرز، اور سائنسندان پیدا ہو سکیں۔ جہاں مباحثے ہوں، جہاں امن ہو، جہاں کسی بھی جنسی ، مذہبی اور علاقائی شناختوں کی تفریق کے بغیر محبت پروان چڑھے۔