2009ء میں توہین قرآن کا یہ مقدمہ مانہ والہ کے نواحی گاؤں میں ملزم لیاقت علی کیخلاف ایک پھیری والے عبدالغنی نے درج کروایا تھا۔
کیس کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شہرام سرور کا کہنا تھا کہ منصوبہ بندی کے تحت اپیل کنندہ کو پھنسایا گیا۔ لیاقت علی کی والدہ کا دوران ٹرائل نہ بیان ریکارڈ کیا گیا نہ ہی جرح کی گئی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ دوران ٹرائل نہ سرکاری وکیل نے عدالت کی معاونت کی نہ ہی مجرم کی جانب سے کوئی وکیل پیش ہوا۔
سرکاری وکیل نے اپیل کنندہ لیاقت علی کی جانب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس کی تحقیق کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ٹرائل کے دوران اپیل کندہ نے خود اپنا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چشم دید گواہ مجرم کی والدہ کا بیان نہ ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ وقوعہ کے وقت پھیری والے مدعی، اس کے بھائی اور رکشہ والے کا پہنچنا بھی شکوک کو جنم دیتا ہے۔ قرآن پاک کی توہین کے ٹھوس شواہد سامنے نہیں لائے گئے۔