سوال یہ ہے کہ پاکستان میں تشدد کا رجحان کب عام ہوا؟ کیا اسلام سیالکوٹ طرز کے واقعات کی اجازت دیتا ہے؟ ایک طرف انسانیت کو فروغ دینے کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری طرف باہر سے آنیوالے انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، یہ تضاد کیوں ہے؟
یہ مرض ایسے لادوا نہیں بنا بلکہ یہ قصہ پرانا ہے۔ اس میں سبھی کا حصہ ہے۔ کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائوں۔ سننے کیلئے بھی حوصلہ چاہیئے۔ ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے تحت مغربی اسلام مخالف مہم نے خونریزی کی وحشاینہ ثقافت کو جنم دیا۔
پاکستان میں شدت پسندی افغانستان پر روس کے حملے کا نتیجہ ہے، جسے شعیہ سنی پراکسی جنگ نے پروان چڑھایا۔ پاکستان کی طرف سے‘‘ مجاہدین’’ کے لئے امداد کی وجہ سے یہ انتہا پسندی اور شدت پسندی اور بڑھ گئی۔
آخرکار نائن الیون کے بعد اس میں تیزی آئی۔ ڈالر کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے والے مدارس کے سلسلے نے اسلام کی غلط تشریح کی۔ سماجی ناانصافی، ناخواندگی اور دائمی غربت نے آگ کو مزید جلا بخشی۔ ڈومور کے امریکی دباؤ نے مزید ناراضگی پیدا کی۔
جس شر میں یہ معاشرہ گرفتار ہے، یہ وہاں سے شروع ہوا جب ایک ناحق کا قتل ہوا تھا۔ ہماری قوم، ہمارا معاشرہ اس قتل ناحق کی مذمت تک نہیں کر سکا تھا۔ اس میں ملوث شخص کو رتبہ ’’غازی‘‘ پر فائز کر دیا گیا تھا۔ قانون کے علم برداروں نے اس پر پھول کی پتیاں نچھاور کی تھیں۔ انتہا پسندی آج ایک بڑی سیاسی دکان بن چکی ہے
سیالکوٹ واقعہ سے دنیا بھر میں ہمارا تشخص بری طرح سے خراب ہوا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے مستقبل قریب میں آثار نظر نہیں آتے۔ کوئی اور واقعہ ہوگا اور ہم اسے بھی بھول جائیں گے۔
اس انتہا پسندی کے پیچھے ایک وجہ معاشی تقسیم بھی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان اتنا خلا پیدا ہو چکا ہے کہ روٹی اور روزگار سے محروم لوگ امیروں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔
معاشی دبائو کے شکار لوگ ڈپریشن میں آکر بھی ’’سانحہ سیالکوٹ‘‘ جیسی حرکتیں کرتے ہیں اور اسے مذہب کا رنگ دے کر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ یہ سلسلہ یہیں رک جائے گا تو اس کی بھول ہے، حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ ہم نے جو اپنے ہاتھوں سے گانٹھیں لگائی ہیں، انہیں اپنے دانتوں سے کھولتے رہیں گے۔