اپنے پروگرام 'دا رپورٹرز' میں ساتھی میزبان چوہدری غلام حسین سے بات کرتے ہوئے صابر شاکر نے کہا کہ لندن میں اس وقت 'مائنس ون' فارمولے پر گفتگو ہو رہی ہے اور تمام اپوزیشن جماعتوں نے اصولی طور پر اس حوالے سے اتفاق کر لیا ہے۔ خورشید شاہ، ایاز صادق اور خواجہ آصف اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کچھ اور رہنما بھی شامل ہیں۔ صرف یہ طے کیا جا رہا ہے کہ اگر ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو کس کو کیا ملے گا، اگلا سیٹ اپ کتنے عرصے تک قائم رہنا چاہیے۔
صابر شاکر کے مطابق مسلم لیگ نواز چاہتی ہے کہ اس نئے سیٹ اپ کا دورانیہ کم سے کم ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ مہینے اور اس کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی سے گارنٹی لی جا رہی ہے کہ یہ نہ ہو کہ ہم عمران خان کو ہٹائیں اور پھر پیپلز پارٹی نئے سیٹ اپ کو لمبا کھینچنے کی کوشش کرے۔ ان سب چیزوں پر بات ہو رہی ہے اور ایاز صادق یہی پیغام لے کر گئے ہیں۔
اپنے استدلال میں وزن ڈالنے کو انہوں نے خرم دستگیر خان کی 92 نیوز کے ایک پروگرام میں کی گئی گفتگو بھی سنوائی جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ ایاز صادق بطور سابق سپیکر تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین سے رابطے میں رہتے ہیں، وہ پارلیمان کی صورتحال اور اپنے آپشنز کے بارے میں نواز شریف سے بات کرنے گئے ہیں اور ضرورت پڑی تو اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کی نواز شریف سے گفتگو بھی کروائیں گے۔
خورشید شاہ صاحب بھی اس سے قبل تقریباً وہی مؤقف اختیار کر چکے ہیں جو ن لیگ کا مؤقف بھی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ چند روز کے لئے نیا وزیر اعظم لایا جا سکتا ہے جو پارلیمان کو انتخابات کی طرف لے جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز اس تجویز سے سو فیصد اتفاق کرے گی۔
گذشتہ روز خواجہ آصف بھی اے آر وائے نیوز پر کاشف عباسی سے بات کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک نیا وزیر اعظم لایا جائے جو بیشک تحریکِ انصاف سے ہو۔ اور اس کا مقصد محض یہ ہو کہ وہ حکومت گرا کر نئے انتخابات کروائے۔
لندن میں موجود چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت اپنی ٹرم پوری کرے گی، اسے اسمبلیوں کے ذریعے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ ہر بار اس طرح کی کوششوں نے اپوزیشن کو کمزور ثابت کیا ہے۔ اب بھی وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کی اصلاحات کو روک کر خود اقتدار میں آیا جائے کیونکہ اوورسیز ووٹنگ میں تحریکِ انصاف کو بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔ غلام حسین کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اس بار بھی ان کو ناکامی ہوگی اور شاید وہ تحریکِ عدم اعتماد لائیں ہی نا۔
تاہم، چوہدری غلام حسین نے تصدیق کی کہ ایاز صادق جو فہرست لے کر آئے ہیں اس میں چند اتحادیوں کے ناموں کے علاوہ تحریکِ انصاف کے ایسے اراکین ہیں جو مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں اور انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کی مستقبل میں امید نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں آپ اگلی بار کے ٹکٹ کا وعدہ دے دیں تو ہم اس حکومت کے خلاف ووٹ کرنے کو تیار ہیں۔ ایک گروپ کا لیڈر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے جب کہ دوسرے کا فیصل آباد سے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ یہ اراکین پہلے بھی رابطوں میں رہے ہیں اور پھر ہر بار اپوزیشن کو لارا لگا کر اہم ترین مواقع پر عمران خان حکومت کے حق میں ووٹ ڈال آتے ہیں اور پھر اپوزیشن کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار بھی اپوزیشن کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہونا ہے۔
صابر شاکر کا البتہ کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اپنے تمام وزرا اور اراکین کو کہا ہے کہ اگلے تین ماہ بہت اہم ہیں اور اس دوران کوئی پاکستان سے باہر نہیں جائے گا۔ یقیناً ان کے پاس بہت سی معلومات ہیں جو ہمارے پاس شاید نہ ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اختلاف سندھ اور وفاق دونوں میں اسمبلیوں سے استعفے دینے پر تھا اور پیپلز پارٹی اس پر متفق نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف تھا کہ ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے۔ مسلم لیگ نواز اس پر پہلے صاف ردِ عمل دیتی تھی کہ یہ ممکن نہیں۔ لیکن اب درمیانہ راستہ نکالا گیا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی اگست 2023 تک نہیں ہونی چاہیے بلکہ جو بھی سیٹ اپ آئے، وہ تین سے پانچ ماہ کے لئے ہونا چاہیے، جو قانون سازی کرنی ہے، وہ کی جائے اور پھر الیکشن کروا دیا جائے۔ پیپلز پارٹی اس پر سوچ بچار کر رہی ہے۔
یہ تہلکہ خیز انکشافات ایک ایسے موقع پر آئے ہیں کہ جب سیاسی تجزیہ کار بار بار اسلام آباد کی فضاؤں میں ایک کثیف سی بو کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ فضا یوں تبھی بنتی ہے جب کسی سیاسی حکومت کے چل چلاؤ کا وقت ہو۔