ہم نے تو کبھی نہیں سنا یا پڑھا کہ تُو کبھی گھر والوں سے لڑ کر غائب ہو گیا ہو یا تجھے کسی نے راہ چلتے 'اوئے تیلی پہلوان یا مراثی' کہہ کر چھیڑا ہو۔ یا تیرے گھر کے باہر کسی نے شرلی چھوڑی ہو۔ یا تیری گاڑی کے نیچے کسی نے پھلجھڑی رکھی ہو۔ یا ٹریفک کے کسی کاکا سپاہی نے تیرا چالان کر دیا ہو۔ ایسا سبق تو غدار سیاست دانوں اور صحافیوں کو سکھایا جاتا ہے بھانڈ، مراثیوں یا کنجروں کو نہیں۔
یار ہم تیرے پرانے دوست اور چاہنے والے ہیں۔ تجھے اس وقت سے جانتے ہیں جب تیرا نام بھی کسی کو معلوم نہ تھا۔ 90 میں تُو ذاکر بھائی (طبلے کا بے تاج بادشاہ استاد ذاکر حسین) کو یہ سوچ کر پاکستان لے آیا کہ اس کی بدولت تیرا بھی نام ہو جائے گا۔ لیکن ایسا ادھیڑا تجھے ذاکر بھائی نے کہ بس رہے نام اللہ کا۔ تُو نے صرف راگ درگا اور باگیشری کا لہرا رکھا ہوا تھا۔ وہ کنسرٹ تو طبلہ سولو تھا دراصل۔ چونکہ تُو نے شیو کمار شرما کے دو ہی راگ رٹے ہوئے تھے لہٰذا تُو نے اسی کنسرٹ میں دو بار باگیشری بجا دیا۔ کوئی خاں صاحب ایسا کرے تو لوگ انڈے اور ٹماٹر نچھاور کریں لیکن تجھے بچہ سمجھ کر سب نے نظر انداز کر دیا۔
جب تو نے دیکھا کہ ذاکر حسین کا طبلہ تو تیرے پیانو کو دھو ڈالتا ہے تو تُو نے دہلی سے شفاعت احمد خان کو بلا لیا۔ اب شفاعت بھائی کا طبلہ بھی تیرے پیانو پر چھا گیا باوجود اس کے کہ تُو نے ان کا والیوم بھی نیچے رکھوایا تھا۔ تُو نے بڑا زور لگایا کہ خاں صاحب لوگ تجھے 'تان سین' مان لیں۔ کسی نے بھی سنجیدگی سے نہ لیا۔ تو نے اپنے کنسرٹس میں اپنے آپ کو استاد اناؤنس کروانا شروع کر دیا۔ کوئی متاثر نہ ہوا۔ تیری دال جب راگوں میں نہ گلی تو تُو نے گانا شروع کر دیا۔ وہاں بھی تُو ناکام ہوا کیونکہ تیرا گلا گانے والا تھا ہی نہیں۔ شہزاد رائے، وائٹل سائن، جنون اور ابرار ہی چھائے رہے۔ تجھے کسی نے گھاس تک نہ ڈالی۔ شہرت کا تو بے انتہا بھوکا تھا۔ پیسہ تیرے پاس تھا۔ تو نے امیتابھ کو منہ مانگے پیسے دے کر اس کے ساتھ ایک گانا فلمایا۔ داد امیتابھ کو ملی۔ آفرین ہے تو نے ہمت نہ ہاری۔ اب کے تو اپنی ہی بنائی فلم میں ہیرو بن گیا۔ تو نے سوچا یہ مولا جٹ والا بزنس کرے گی۔ فلم فلاپ ہوئی اور اس سے زیادہ تو فلاپ ہوا بطور ایکٹر۔
پے در پے ناکامیوں کے بعد تو کمپوزر بن گیا اور خوب پیسہ خرچ کر کے ایک گانا کمپوز کیا اور آشا جی سے گوا دیا۔ تو نے سوچا اب بالی وڈ اے آر رحمان کو چھوڑکر تیرے پیچھے بھاگے گا۔ کسی نے نوٹس تک نہ کیا۔ پھر تو نے سوچا کہ اگر تجھے کسی طرح پدما شری مل جائے تو ایک ٹھپہ لگ جائے گا۔ تو بھارت میں شاستریہ سنگیت کا پنڈت بن جاوے گا۔ بڑا رعب پڑے گا دوسروں پر۔ مگر اس کے لیے بھارتی شہری ہونا ضروری تھا۔ بس تو نے مودی کی خوشامد شروع کر دی اور اس نے تجھے بھارتی شہریت اور پدما شری بھی دے دیا۔ تو نے وفاداری نبھائی۔ پاکستان کو دو چار دی گالیاں۔ اپنے آپ کو لپیٹا ترنگے میں اور تصویریں اپ لوڈ کر دیں فیس بک پر اور نعرہ لگایا 'جے بھارت ماتا!' اس کے باوجود تجھے بھارتی فلموں میں کسی نے رول آفر نہ کیا۔۔ ایکسٹرا کا بھی نہیں۔ نہ کسی نے تجھ سے گوایا۔ انہیں تو راحت فتح علی خان کے علاوہ کوئی نظر ہی نہ آیا۔ نہ کسی نے تجھ سے گانے کمپوز کرائے۔ تو 'دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا' کی چلتی پھرتی تصویر بن گیا۔ ان حالات میں تیری دماغی حالت خراب ہو جانا عین قدرتی تھا۔
اب کے تیرے دماغ میں نیا آئیڈیا آیا۔ خبروں میں رہنے کے جب سب گر ناکام ہو گئے تو تُو نے سوچا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر راجیہ سبھا کا ممبر بن جاؤں۔ تو نے اس مقصد کے حصول کے لیے مودی اور اس کے چمچوں کے جوتے چاٹنے شروع کر دیے۔ مزید رام کرنے کے لیے تو نے پاکستان کے خلاف زہر افشانی شروع کر دی۔ یہی وہ بہترین گُر تھا جو تجھے راجیہ سبھا تک لے جا سکتا تھا۔ تو نے کچھ غلط نہیں کیا۔ لیکن راج نیتی میں بھی تو اگر فلاپ ہو گیا تو پھر 'تیرا کیا ہو گا تھالی کے بینگن؟'