پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت نے ایک بیان میں حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ایک غیر موثر اور بے اختیار قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت کا قیام پالیسی سازی میں مذہبی اقلیتوں کی بامعنی شمولیت کے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ نا ہی مجوزہ ترکیب میں یہ کمیشن اقلیتوں کی پسماندگی اور محرومی کو دور کر پائے گالہذا اس کمیشن کی کامیابی ادارہ کی خود مختار تشکیل ،ٹھو س قانونی بنیاد اور معیاری تقرریوں میں مضمر ہے۔ پیپلز کمیشن نے کہا کہ ایسا کمیشن جو اقوام متحدہ کے پیرس معیارات پر پورا نہ اترتا ہو، اقلیتوں کے لیے ناقابل قبول اور بے معنی ہو گا۔
پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت کے نمائندوں پیٹر جیکب، چیئرپرسن، جسٹس (ر) کیلاش ناتھ کوہلی، ڈاکٹر عبدالحمید نیئر اور مشیل چوہدری، پنجاب اور بلوچستان کے صوبائی سربراہوں نے مشترکہ بیان میں وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں وزارتی اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں میں بے اختیار اقلیتوں کا کمیشن بنا دیا جاتا تھا اور چونکہ یہ غیر مؤثر ہوتا ، اس لیے یہ مذہبی اقلیتوں کی محرومیاں کو دور کرنے میں ناکام رہا۔ افسوس کہ وفاقی حکومت ما ضی کی غلطیوں کو دہرا رہی ہے جس سے مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں شا مل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے مجوزہ کمیشن کو مذہبی نمائندگی کی بجائے حقوق کا ادارہ ہونا چاہیے لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مجوزہ کمیشن کے اختیارات2013 سے قائم قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مساوی ہوں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کمیشن کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش، جیسے اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر ضروری نمائندگی، اسے ملک میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے مقاصد سے متصادم اور دیگر اداروں سے غیر مساوی بنا دے گی۔ چونکہ پاکستان کا آئین مذہبی اقلیتوں سے متعلق کسی بھی معاملے میں اسلامی نظریاتی کونسل کو اختیار تفویض نہیں کرتا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت کی تشکیل میں نظریاتی کو نسل کو متنازع یا فریق بنانے سے گریز کرے۔
پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت کو ا نسانی حقوق کی حقیقی تنظیموں سے مشاورت کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ مجوزہ قومی کمیشن برا ئے حقوق ِ اقلیت کو حقیقی معنوں میں خودمختار بنایا جائے۔ پیپلز کمیشن کے نمائندوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکو مت سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2014 کےفیصلے کی ہدایات پر عمل کرے، جو چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سر براہی میں ایک بنچ نے پالیسی سازی میں اقلیتوں کو شامل کرنے کے حوالے سے دی تھیں۔