ہر کام کرنے کے لئے تحقیق ضروری ہے

09:09 AM, 9 Feb, 2020

کاشف خان
اذان مغرب کے ساتھ ساتھ میں حسب روایت نماز پڑھنے کے لئے مسجد روانہ ہوا۔ ہمارے گاؤں کا مسجد ہمارے گھر سے تقریبا تین سو گز کے فاصلے پر واقع ہے اتنے تھوڑے سے فاصلے کی وجہ سے میں اکثر اوقات بہت ہی آہستہ آہستہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد جاتا ہوں اور آج بھی ایسا کیا۔ جب مسجد پہنچ گیا تو نمازی نماز کے لئے کھڑے تھے میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا۔ نماز پڑھنے کے دوران اکثر میں دنیا کی سوچوں میں پڑ جاتا اور پھر مجھے پتہ نہیں چلتا کہ کتنی رکعت پڑھ لیں۔

 آج بھی ایسا ہوا امام نے سلام پھیر لیا تو اس وقت میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ سلام پھیر لوں یا ایک رکعت کے لئے اٹھ جاؤ لیکن میرے ساتھ ایک نمازی جو میرے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا اس نے سلام پھیر لیا تو پھر میں نے بھی سلام پھیر لیا۔

مسجد کے امام کی سلام پھیرنے کے تقریبا تیس سیکنڈ بعد ایک شخص کھڑا ہوا اور حسب روایات سب سے پہلا وہ جملہ کہا جو مسجدوں میں تبلیغی حضرات کہتے ہیں "میں آپ لوگوں کا پانچ منٹ لینا چاہتا ہوں" یہ شخص ہمارے علاقے کا نہیں تھا اور اس کی ساخت اور زبان کا استعمال مولوی حضرات جیسا ہی تھا۔ حسب روایات جملہ کہنے کے بعد اس شخص نے " جہاد" کے بارے میں بیان شروع کیا اور جہاد کے اہمیت، فوائد وغیرہ پر باتیں کیں اور جہاد کے حوالے سے قرآن، احادیث اور صحابہ کرامؓ کی مثالیں بھی دے دیں۔ انھوں نے افغانستان، شام وغیرہ ممالک کا ذکر کیا اور درمیان میں رونے کا انداز بھی اختیار کیا رونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شمالی وزیرستان کے ایک علاقے کا ذکر کیا اور کہا اس علاقے میں امریکیوں نے ڈرون حملہ کیا ہے اور اتنے خاندانوں کے اتنے لوگ شہید ہوئے ہیں اور اس میں شہید ہونے والی بات مجھے جھوٹ جیسی لگی۔ کیونکہ میں تو ہر روز اٹھ نو گھنٹے Online News  دیکھتا ہوں اور وہ بھی اکثر بی بی سی اردو اور انگلش دیکھتا ہوں، پڑھتا ہوں میں سوچنے لگتا ہوں کہ پاکستانی میڈیا اس طرح کے واقعات highlights  نہیں کرسکتا۔ اگر کر بھی لے تو پاکستان میں سنسر شپ کا تصور بھی موجود ہے۔ بہرحال جو بھی ہے میں بیٹھا تھا اور مجھے اور بھی باتیں سننے کو ملیں جو میرے علم میں اضافہ کرتی گئیں۔

صاحب نے کہا کہ ہمارے ملک کی مساجد اور دینی مدارس ان مجاہدین کی وجہ سے محفوظ ہیں جو دن رات بغیر کسی لالچ اللہ تعالی کی رضا کے لئے لڑتے ہیں اور ساتھ میں ان کی ایک داستان بھی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مجاہدین پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ انہیں پچیس دن سے کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا صرف درخت کے پتوں پر اپنا وقت گزارا اور آخر میں ان صاحب نے مسجد میں موجود تمام لوگوں سے ان مجاہدین کے لئے چندہ جمع کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ آپ لوگوں کا تعاون ہی ان مجاہدین کو اسلحہ اور کھانے پینے کا ذریعہ بننے گا اور اللہ تعالی آپ سب کو اس کا اجر قیامت کے دن دے گا۔

ان صاحب کے ساتھ ایک اور بھی لڑکا تھا جو جہاد کے حوالے سے بات ختم ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد کے دروازہ کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی چادر فرش پر رکھ دی جس میں لوگ اپنی استطاعت کے مطابق چندہ ڈالتے گئے۔ میں مسجد میں سب سے آخر میں رہ گیا جو یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ دے دوں یا نہیں۔ کیونکہ ان صاحب نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے مجاہدین کہاں لڑتے ہیں؟ کس کے خلاف لڑتے ہیں؟ اور کیوں لڑتے ہیں؟

میں سمجھتا تھا کہ اگر پاکستانیوں کے لئے لڑتے ہیں تو پھر پاکستان کی فوج کیا کرتی ہیں؟  ہم تو ٹیکس دیتے ہیں تو پھر چندے کی کیا ضرورت ہے؟  شاید ان کے علم میں یہ بھی نہیں تھا کہ پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ملک ہے۔

پاکستان اسلامی ریاستوں میں وہ واحد ریاست ہے جس کی طرف جو بھی ترچھی نگاہوں سے دیکھنے کا ارداہ کرے گا تو اس سے پہلے وہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ماہرین سے رائے لے گا۔ میں نے سوچا شاید ایسا کہیں نہ ہو جائے کہ میرے ہی یہ پیسہ میرے ہی ملک اور معصوم مرد عورتوں بچوں کی جان لینے کا سبب بنیں، اس وجہ سے میں دئیے بغیر مسجد سے باہر نکلا۔ بعد میں میں نے سوچا کہ اگر واقعی یہ لوگ مجاہدین کے لئے چندہ اکٹھا کرتے ہیں تو ان صاحبان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ حکومت پاکستان، ضلعی انتظامیہ یا تحصیل انتظامیہ کی طرف سے کوئی اتھارٹی لیٹر ہونا چاہیے۔

 
مزیدخبریں