دوسری طرف 1980 کی دہائی میں نواز شریف فوج کے کندھے پر سوار ہو کر ہی اقتدار تک رسائی حاصل کر پائے تھے۔ جنرل غلام جیلانی نے انہیں وزیر بنایا، بعد ازاں انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بھی بنا دیا گیا اور ان کے خلاف یوسف رضا گیلانی اور چودھری پرویز الٰہی کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے جنرل ضیاالحق خود میدان میں اترے تھے۔ مگر 1993 میں انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو نواز شریف اور فوج کے درمیان تعلقات میں ایک خلیج پیدا ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ 1999 میں انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو یہ coup سپہ سالار نے خود نہیں بلکہ ادارے نے کیا تھا جو اپنے سپہ سالار کو نکالے جانے کا بدلہ لینے پر تلا تھا۔ جزئیات پر بات ہو سکتی ہے لیکن 1999 میں نواز شریف نے فوج کے اندر اپنے تقریباً تمام حامیوں کو کھو دیا تھا۔ 2013 میں لہٰذا وہ جب اقتدار میں آئے تو انہیں صرف قبول کر لیا گیا تھا کیونکہ عوام میں ان کی مقبولیت اس وقت پنجاب کی حد تک اتنی ضرور تھی کہ وہ اقتدار میں آ سکیں اور میمو گیٹ اور یوسف رضا گیلانی کے ’ریاست کے اندر ریاست‘ والے بیان کے بعد پیپلز پارٹی ناقابلِ قبول ہو چکی تھی۔ نواز شریف لہٰذا اقتدار میں تو آ گئے لیکن دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اس بار ان کا confidence 1997 سے بھی زیادہ تھا۔ اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ 1999 کے مارشل لاء کے بعد جو تھوڑی بہت کسر باقی رہ گئی تھی، وہ 2017 میں بالکل ختم ہو گئی۔ میاں صاحب اب ناقابلِ قبول ہیں۔ کم از کم فی الحال تو صورتحال یہی ہے۔
یہاں بھی نواز شریف نے تاریخ کی غلط سمت سے صحیح سمت کی طرف سفر کیا۔ مگر ان کی جماعت میں آج بھی بہت بڑی تعداد میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کھیلنے کی خواہش رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جماعت ہی کیا، خاندان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ نواز شریف صاحب نے بھلے سبق حاصل کر لیا ہو، جماعت وہیں کھڑی ہے۔ البتہ نواز شریف کا متوالا سپورٹر اب نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ سویلین بالادستی میں یقین رکھتا ہے۔
تیسرا معاملہ مذہب کا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی مدد سے 1988 انتخاب میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے والا نواز شریف جو بعد میں اسی اتحاد کے ووٹوں سے ملک کا وزیر اعظم بھی بنا اور 1999 میں یہاں تک چلا گیا کہ تقریباً شریعہ نافذ کر کے ملک کا امیرالمؤمنین بننے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن جہاں ان کی سوچ میں دیگر حوالوں سے تبدیلی آئی ہے، مذہبی معاملے میں بھی وہ اب کوئی سخت گیر مؤقف نہیں رکھتے۔ ذاتی طور پر وہ اب بھی صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں لیکن عوامی سطح پر وہ اب ’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے‘ کہنے تک ہی محدود ہیں۔
تاہم، یہاں بھی ان کی جماعت کے زیادہ تر لوگ وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ کئی دہائیوں پہلے کھڑے تھے۔ 2009 میں شہباز شریف کا طالبان کی سوچ کو مسلم لیگ ن کی سوچ سے ہم آہنگ قرار دینا ہو یا پھر 2017 میں بائیسویں آئینی ترمیم کے ’ذمہ داروں‘ کو کابینہ سے نکال باہر کرنے کی اپیل، 2013 میں چودھری نثار کا حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے پر واویلا ہو یا پھر 2017 میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی آڑ لے کر شہری آزادیوں کو پامال کرنے کی مذموم سازش کا حصہ بننا ہو، مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما اور وفاقی کابینہ کے وزرا یہ سب کام ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھی اس جماعت کا نظریہ ہمیشہ درمیانی پالیسی اپنانے کا ہی رہا۔ تاہم، نواز شریف خود پر سے یہ ٹیگ ہٹانے کی کوشش بھی بہت عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2010 میں احمدی عبادت گاہوں پر حملہ ہوا تو نواز شریف نے انہیں اپنے پاکستانی بھائی قرار دیا۔ اس پر انہیں خوب فتوے بازی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2016 میں وہ دیوالی کے موقع پر ہندو کمیونٹی کی دعوت پر گئے تو وہاں خود کو ہولی کے لئے دعوت بھی دے ڈالی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے محکمہ فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔
لیکن جب نواز شریف پر ختمِ نبوتؐ کے حوالے سے الزامات لگنے لگے تو ان کے داماد کیپٹن صفدر نے ممتاز قادری کو ہیرو بھی قرار دینا شروع کر دیا۔ وہی ممتاز قادری جسے 29 فروری 2016 کو پھانسی چڑھایا گیا تھا تو حکومت نواز شریف ہی کی تھی۔ بائیسویں آئینی ترمیم پر نواز شریف پر دباؤ حد سے زیادہ بڑھنے لگا تو کیپٹن صفدر نے پارلیمان میں ایک احمدی مخالف نفرت انگیز تقریر کی جس میں فوج میں سے احمدی حضرات کو نکالنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ نواز شریف ایک طرف جامعہ نعیمیہ میں ممتاز قادری کے حامیوں سے جوتا کھا رہے تھے تو دوسری طرف کیپٹن صفدر خود کو ممتاز قادری کا سب سے بڑا بھکت دکھانے کی کوشش میں مصروف تھے۔
اس گومگو کی پالیسی نے ایک زمانے تک نواز شریف کو عوام کے بہت سے متحارب طبقات میں بیک وقت قابلِ قبول بنائے رکھا۔ حافظ سعید ایک زمانے میں ان کے حامی تھے۔ بریلوی جامعہ نعیمیہ اور دیوبندی جامعہ اشرفیہ دونوں ان کی جماعت کو سپورٹ کیا کرتے تھے۔ تاہم، تحریک لبیک پاکستان کے قیام اور تحریکِ انصاف کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی سیاست کو کچھ اس طرح سے اپنایا ہے کہ آہستہ آہستہ مذہبی طبقات اس کے ہمنوا بنتے جا رہے ہیں، یا کم از کم ان میں ایک خلیج تو پیدا ہو چکی ہے، کہ کچھ لوگ ان کے شدید حامی ہیں اور کچھ ان کے شدید مخالف۔ کیپٹن صفدر کی حالیہ تقریر کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نوشہرہ کے عوام کو کیپٹن صفدر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ممتاز قادری کے حامی ہیں، بہت مذہبی ہیں، لہٰذا انہیں ووٹ دیا جائے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) ان کے ساتھ اس الیکشن میں اتحادی ہے۔ مقابلہ تحریکِ انصاف سے ہے اور کیپٹن صفدر عمران حکومت کو اسرائیلی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عمران خان نواز شریف کو مودی کا یار قرار دیا کرتے تھے۔
نقصان لیکن اس سارے معاملے میں یہ ہے کہ جب آپ ختمِ نبوتؐ کے معاملے کو سیاسی بناتے ہیں تو اس سے فائدہ وہ سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں جو اس کی اصل چیمپیئن ہیں۔ تحریک لبیک اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔ وقتی طور پر ختم نبوتؐ کانفرنسز میں شرکت کر کے عمران خان نے انہیں اپنا ہمنوا بنا بھی لیا ہو، آج یہ تمام طبقات عمران خان سے ناخوش ہیں کیونکہ انہیں کہیں ایسی کوئی قانون سازی نظر نہیں آ رہی جو کہ ان کی شریعت نافذ کرنے کی خواہش سے ہم آہنگ ہو۔ ایک جدید قومی ریاست ایسی قانون سازی کی متحمل ہو بھی نہیں سکتی۔ نتیجتاً یہ مذہبی گروہ ان کے خلاف بھی برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ نواز شریف کے داماد بھی اسی سوچ کو ایک بار پھر ہوا دے رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ مذہبی طبقے کو اپنی طرف راغب کر لیں گے لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مذہبی طبقے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی نواز شریف دور میں ہوئی اور تحریکِ لبیک نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اس بیانیے کی ترویج سے وہ تحریکِ لبیک اور ایسی دیگر انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھ ہی مضبوط کر رہے ہیں۔ یہ وہ جن ہے جسے بوتل سے باہر نکالنے کو تو سب تیار رہتے ہیں لیکن جب یہ دیو ان کو ہی کھانے لگتا ہے تو انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ اب اسے بوتل میں واپس بند کیسے کریں۔