مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟

10:26 AM, 9 Jul, 2020

فتح محمد ملک
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے مسلط کردہ بنیادی جمہوریت کے غیر جمہوری نظام کے تحت صدارتی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی۔ اِس الیکشن مہم کے دوران جب میانوالی میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کی خاطر مادر ملت کے تلہ گنگ سے گزرنے کی خبر عام ہوئی تو لوگوں میں جوش و خروش لہر در لہر اُمنڈنے لگا۔ بار بار کے اِس اعلان کے باوجود کہ مادرِ ملت میانوالی جاتے ہوئے تلہ گنگ سے گزریں گی مگر یہاں نہ تو وہ رکیں گی اور نہ کوئی خطاب فرمائیں گی۔ اِس کے باوجود عوام کا ایک جمِ غفیر مادرِ ملت کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر جمع ہو گیا۔

مادرِ ملّت نے عوام کے اتنے بڑے ہجوم کو دیکھ کر اپنی گاڑی رُکوائی اور بے دھڑک کار سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے ہجوم سے خطاب کرنا شروع کر دیا۔ اُن کے ہمراہ میانوالی جانے والے لیڈرانِ کرام روکتے رہ گئے مگر انھوں نے خطاب جاری رکھا۔ لوگوں کا جوش و خروش بڑھتا گیا، خطاب طویل سے طویل تر ہوتا گیا اور لوگوں کے دلوں سے ایوب آمریت اوراُ س کے مقامی ہواخواہوں کا خوف مٹتا چلا گیا۔

سفید نورانی لباس میں ملبوس طویل القامت مگر نحیف و نزار فاطمہ جناح کی یقینِ محکم سے تھراتی ہوئی گونجدار آواز نے عوام کے دلوں کو گرمایا بھی، تڑپایا بھی اور نئے عزم و عمل کا حوصلہ بھی بخشا۔ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی خدمت، ایثار اور وفا کی اقدار سے اٹوٹ اور فعال وابستگی سے عبارت تھی۔ انھوں نے زندگی کے انفرادی اور اجتماعی ہر دو میدانوں میں ان اعلی انسانی اقدار کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھا۔ اپنے عظیم بھائی کی طرح انھوں نے جو کہا وہی کیا۔ جب انھیں قائداعظم کی بیماری کا پتہ چلا تو انھوں نے اپنے بھائی کی تیمارداری کا حق ادا کرنے کی خاطر اپنے ذاتی رنج و راحت کو بھلا دیا اور اپنے کلینک کو بند کر کے اپنے ذاتی کیریئر کو ختم کر دیا۔

قائداعظم تو قوم کی تیمارداری میں ہمہ وقت منہمک تھے ہی اب محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم کی تیمارداری میں خود فراموشی کی حد تک مصروفِ عمل ہو گئیں۔ طلوعِ آزادی کے ساتھ ہی ہمارے قومی اُفق پر دو نامور خواتین نمودار ہوئیں۔ ان میں سے ایک مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں اور دوسری خاتون پاکستان رعنا لیاقت علی خان۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان پاکستانی خواتین کی اصلاح، بہبود اور ترقی میں سرگرمِ عمل ہو گئیں۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے لیے ایک وسیع تر اور کٹھن تر میدانِ عمل کا انتخاب کیا۔ پاکستانی قوم کی آزادی، خود مختاری اور انسانی حقوق کا تحفظ ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور قرار پایا۔ بابائے قوم کی رحلت کے بعد وہ ہر آن ہمیں ان عظیم تصورات کی جانب متوجہ کرتی رہیں، جنہیں عملی زندگی کے ٹھوس اور متحرک قالب میں ڈھالنے کی خاطر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ وہ ہمیں بڑے تسلسل کے ساتھ قائداعظم کے خواب و خیال کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رو بہ عمل لانے کی تلقین کرتی رہیں۔

پاکستان میں جب پہلے پہل سلطانی جمہور کے خواب پامال ہوئے تو انھوں نے ایک بہادر، نڈر اور محب پاکستانی کی طرح آمریت کو چیلنج کیا۔ جبر و استبداد کے خلاف ان کا احتجاج صرف لفظی احتجاج کا نام نہ تھا بلکہ عملی زندگی کا ایک آتشیں مسلک تھا۔ انھوں نے اس مسلک سے بھی وفا کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے ہمیں بروقت خبردار کیا کہ ہم نے انحراف کی خطرناک راہ اختیار کر لی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ انحراف کی بجائے اثبات کا راستہ اپنا کر پاکستان کو تحریکِ پاکستان کے خوابوں کا پاکستان بنا دیں۔ انھوں نے ہمیں بار بار یاد دلایا کہ قائداعظم کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے؟ پاکستان کے تصور اور پاکستانی زندگی کے حقائق کے درمیان تضاد اور تصادم کی کیفیات کی مادرِ ملت جس جرأت رندانہ کے ساتھ نشاندہی کرتی رہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔

جب صدرایوب خاں نے صدارتی انتخاب کا اعلان کیا اس وقت چار سُو ہُو کا عالم تھا۔ ایسی دہشت تھی، ایسا سہم تھا کہ کوئی سیاسی پارٹی اور کوئی سیاسی لیڈر ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیداوار بننے کو تیار نہ تھا۔ مولانا بھاشانی اور مولانا مودودی سمیت پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے رہنما ایک ساتھ مادرِ ملت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ صدارتی امیدوار بن کر صدر ایوب کے مقابلے میں آئیں۔ چنانچہ مادرِ ملت نے ان سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کی قیادت کا کٹھن فریضہ سرانجام دیا۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سرکاری اشارے پر چند علمائے کرام نے یہ سوال اٹھایا کہ از روئے شریعت عورت کسی مسلمان مملکت کی سربراہ نہیں ہو سکتی تو خود مولانا ابوالاعلی نے یہ فتوی دیا کہ کوئی اور مسلمان عورت کسی اور مسلمان ملک کی سربراہ ہو سکے یا نہ ہو سکے، مادرِ ملت اسلامیہ جمہوری پاکستان کی سربراہ ہو سکتی ہیں۔ میں اس فتوے کا یہ مطلب لیتا ہوں کہ از روئے اسلام مادرِ ملت کے عہد میں پاکستان میں کوئی مرد اپنے اعلی انسانی اوصاف میں ان کا ہمسر نہ تھا۔ شیر مردوں کے اس قحط میں مادرِ ملت شجاعت اور ’’مردانگی‘‘ میں اپنی مثال آپ تھیں۔ پیرانہ سالی کے باوجود انھوں نے صدارتی انتخاب کی اس مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ انھوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جلسہ ہائے عام سے خطاب فرمایا۔ ان جلسوں میں انھوں نے اُجلی اور شفاف جمہوریت، معاشی عدل و انصاف، معاشرتی مساوات اور علمی اور تخلیقی آزادی کے تصورات کو پاکستانی معاشرے میں سکہ رائج الوقت بنانے کے عزائم کا اظہار کیا۔ انھوں نے دوٹوک انداز میں یہ بات عوام کے ذہن نشین کی کہ پاکستان انہیں آفاقی انسانی اصول کو عملی زندگی کی بنیاد بنانے کے لیے وجود میں آیا تھا۔

یہ میری خوش بختی ہے کہ میں نے مادرِ ملت کو دو تین بار عام جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا اور سُنا، میں نے اُن کی پہلی انتخابی تقریر تلہ گنگ میں سنی تھی۔ وہ جہلم میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد میانوالی جا رہی تھیں کہ تلہ گنگ کے عوام نے ان کی گاڑی کو روکا۔ وہ اُتریں اور ہجوم سے خطاب کرنے لگیں۔ نحیف و نزار مگر انتہائی باوقار، سفید قمیض شلوار اور سفید دوپٹے میں ملبوس یہ کشیدہ قامت پیکرِ عزم و استقلال آج بھی میری نگاہوں کے سامنے محوِ گفتار ہے۔

آج بھی اس دِن کی طرح مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اتنے نحیف و نزار پیکر سے اتنی گرجدار، اتنی پرعزم اور اتنی نڈر اور اتنی بیباک آواز کیونکر بلند ہو سکتی ہے؟ اصل اس کی نئے نواز کا دل ہے کہ چوب نے؟ نہیں اس کا سرچشمہ یہ پیکر خاکی نہیں۔ ہر گز نہیں۔ یہ روح ہے، یہ دل ہے جس سے سورج کی کرنوں کی مانند پھوٹتی ہوئی یہ آواز جبر و استبداد کی فولادی نظام کے پرزے اڑاتی چلی جا رہی ہے۔ یہ آواز ایک دل سے نکل رہی ہے اور پورے ہجوم کے دلوں میں اُتر رہی ہے۔ یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے یہاں خوف و دہشت اور جبرو استبداد کی حکمرانی کبھی تھی ہی نہیں۔

میرے بزرگ دوست منظور عارف مرحوم بھی اس وقت میرے ساتھ تھے۔ مادرِ ملت جب ہجوم سے رُخصت ہو کر میانوالی روانہ ہوئیں تو ہم لوگ پیدل چلتے ہوئے گاؤں پہنچے۔ گھر پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ دو میل کا سفر ہم نے خاموشی ہی خاموشی میں طے کر لیا ہے۔ جب میں نے اس خاموشی پر تعجب کیا تو منظور عارف نے کہا چپ، غزل ہو رہی ہے۔ اس غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

جرسِ دل کی صدا بن کے چلے
تو اگر راہنما بن کے چلے
آرزو ہے کہ بنوں میں دریا
اور تُو مجھ پہ ہوا بن کے چلے
مورِ بے مایہ کی رفتار چلوں
تو اگر آبلہ پا بن کے چلے
عقل و دانش تیرے قدموں پہ نثار
تُو اگر ہوش رُبا بن کے چلے

آج جب میں مادرِ ملت کے خطبات کو پڑھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں پڑھ نہیں رہا سن رہا ہوں۔ ایک شخص ہے جو اپنی ذات سے باہر نکل کر، اپنے رنج و راحت سے بالاتر ہو کر اور ہر نوع کے لالچ اور ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو کر ہم پاکستانیوں کو اس مثالی پاکستان کا خواب دکھانے میں مصروف ہے جسے ہمارے اجداد نے اپنی آنکھوں میں بسا کر پاکستان کی منزل کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس مثالی پاکستان کے خدوخال اور احوال و مقامات ہی وہ میراث ہے جسے ہمارے سپرد کر کے مادرِ ملّت اللہ کو پیاری ہوئی تھیں۔ اس میراث کی قدر وقیمت کو سمجھنا اور اسے مثالی پاکستان کی تخلیق کے جذبے سے اپنے دلوں کی خاک میں بیج کی مانند بونا ہمارا فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی میں انہماک ہی وہ بہترینِ خراج عقیدت ہے جو ہم مادرِ ملت کو پیش کر سکتے ہیں۔
مزیدخبریں