سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے ریلوے خسارہ ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سیکریٹری ریلوے پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی جانب سے محکمے میں بھرتیوں کے بیان پر حیرت کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ ریلوے میں ایک لاکھ بھرتیاں کریں گے۔ ریلوے کے پاس پہلے ہی 77 ہزار ملازمین ہیں، وزیر ریلوے ایک لاکھ ملازمین کو کہاں بھرتی کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ چین سے ایم ایل ون کا ملنے والا پیسہ ایک لاکھ ملازمین ہی لے جائیں گے، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت کی کوشش ہے ملازمین کی تعداد کم کر کے 56 ہزار تک لائی جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک لاکھ ملازمین ایم ایل ون کے لیے رکھے جائیں گے، شیخ رشید سے شاید الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوگئی ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریلوے کے معاملات پر سیکریٹری ریلوے کی سرزنش کی اور کہا کہ آپ سے ریلوے نہیں چل رہی، ریلوے کے سیکریٹری، سی ای او اور تمام ڈی ایس فارغ کرنا پڑیں گے۔ ریلوے کا نظام ایسا نہیں کہ ٹرین ٹریک پر چل سکے، ریلوے کا ٹریک لوگوں کے لیے ڈیتھ ٹریک بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں بلٹ ٹرین چل رہی ہے، (یہاں) ایم ایل ون منصوبے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، ایم ایل ون کے تحت اسٹیشنز کو کمرشلائز کریں گے، اس پر سیکریٹری ریلوے نے جواب دیا کہ ایم ایل ون میں کراسنگ نہیں ہوگی۔
سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ ایم ایل ون کے تحت ریلوے ٹریک کے نیچے انڈر پاس یا اور بالائی گزرگاہ بنائیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے سیکریٹری ریلوے کی بات سننے کے بعد ریلوے کے سفر کو مسافروں کو محفوظ بنانے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت فوری اقدامات سے یقینی بنائے کہ ریلوے کا سفر عوام کے لیے محفوظ ہو، آئے روز کے حادثات سے قیمتی زندگیوں اور ریلوے کا نقصان ہو رہا، ریلوے کو جس طرح چلایا جا رہا ہے اس انداز میں نہیں چلایا جا سکتا۔ ریلوے کا انفرا اسٹرکچر کام کے قابل نہیں رہا، محکمے کے تمام شعبہ جات میں اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ جس کے بعد عدالت نے پلاننگ ڈویژن سے ایم ایل ون منصوبے سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا۔