جب جگدیپ کا اصلی سورما بھوپالی سے ٹاکرا ہو

08:12 PM, 9 Jul, 2020

سفیان خان
یہ 1976 کا ایک دن تھا، ’شعلے‘ سپر ڈوپر ہٹ ہو چکی تھی اور جگدیپ اس کی کامیابی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ جگدیپ جعفری ایک فلم کی عکس بندی میں مصروف تھے۔ فلم کے سیٹ پر سبھی تیار تھے، اور جگدیپ اپنے مکالمات کو دہرا رہے تھے۔ اچانک ان کی نگاہ اس ہجوم پر پڑی جو عکس بندی دیکھنے آیا ہوا تھا تو ان میں ایک سیاہ رنگت کا شخص انہیں انتہائی غصیلے انداز میں دیکھ رہا تھا، چہرے پر ناگواری تھی، آنکھیں خاصی غضب ناک ہو رہی تھیں، لگ یہی رہا تھا کہ وہ کچا ہی چبا ڈالے گا۔ مسلسل جگدیپ کو گھورے جا رہا تھا، اور یہی بات ان پر کپکپی طاری کر رہی تھی، مکالمات جو وہ یاد کر رہے تھے، ذہن میں بیٹھ ہی نہیں پا رہے تھے، کیونکہ اعصاب پر یہی شخص سوار تھا۔

جگدیپ کو احساس ہوا کہ کہیں یہ ان پر حملہ نہ کر دے، اسی لئے نشست سے اٹھ کر کھسکنے کی تیاری کرنے لگے۔ تبھی اس شخص کی آواز آئی ’کہاں جارہے ہو میاں، ایسے کیسے؟‘ پہلے تو جگدیپ کو خوف آیا لیکن پھر اس کا انداز گفتگو سن کر انہیں لگا جیسے وہ ان کا ’شعلے‘ میں سورما بھوپالی والا کرداربول رہا تھا۔ جگدیپ اس سے پہلے کچھ بولتے وہ اسی انداز میں مخاطب ہوا ’میرا فلم میں مذاق اڑا دیا سلیم جاوید نے۔ لکڑہارا بنا کر رکھ دیا‘ بھوپال میں بچہ بچہ میرا مذاق اڑا رہا ہے، سرکاری افسر ہوں، وکیل لے کر آیا ہوں چھوڑوں گا نہیں۔‘



جگدیپ جو دہشت اور خوف سے کچھ لمحے پہلے دوچار تھے، اب ان کی چہرے پر مسکراہٹ تھی کیونکہ ان کے سامنے اصلی سورما بھوپالی کھڑا تھا جو بھوپال میں فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کا سرکاری افسر تھا۔ جس کا شکوہ تھا کہ جاوید اختر سے یارانہ تھا اور وہ اکثر بھوپال آتے تھے، محفلیں جمتی تھیں لیکن انہوں نے ’شعلے‘ میں ا ن کے انداز گفتگو اور یہاں تک کہ ان کے نام کو بھی استعمال کر کے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ناہر سنگھ نامی یہ شخص اپنے ساتھ دو وکیل بھی مقدمے بازی کے لئے لایا تھا۔ جگدیپ نے کامیڈین جانی واکر کی مدد سے انہیں سمجھا بجھا کر بھیجا۔

بھوپال سے ممبئی کا رخ کرنے ولے ناہر سنگھ کا انداز گفتگو ہی دراصل ’شعلے‘ میں جگدیپ والے کردار جیسا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ ناہر سنگھ یار دوستوں کی محفلیں سجاتے اور اپنے مخصوص انداز میں قصے کہانیاں سناتے۔ دنیا کا ہر کام کرچکے تھے، ہر معرکہ سرانجام دے چکے تھے، اسی لئے بھوپال کے لوگ ان کے جھوٹے سچے قصوں سے تنگ آ کر انہیں ’سورما‘ کہتے اور پھر کچھ ہی عرصے میں وہ پورے علاقے میں ’ سورما بھوپالی‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔

جاوید اختر سے ان کی دوستی تھی اور جب انہوں نے ’شعلے‘ کا سکرین پلے سلیم خان کے ساتھ مل کر لکھا تو فلم میں ’ سورما بھوپالی‘ کا کردار جوں کا توں پیش کر دیا۔ جگدیپ نے حقیقت سے قریب تر اداکاری کر کے اس میں اور رنگ بھر دیے۔ مگر اصلی سورما بھوپالی کو یہ شکوہ تھا کہ ’شعلے‘ میں انہیں لکڑیاں فروخت کرنے والا لکڑہارا دکھا کر ان کی تذلیل کی گئی ہے اور اسی بات کو لے کر پورے بھوپال میں وہ مذاق بن گئے۔ لوگ انہیں ’افسر بابو‘ کے بجائے ’لکڑہارا‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’شعلے‘ کے ’ سورما بھوپالی‘ والے کردار کو فلم کی نمائش سے دس گیارہ سال پہلے تخلیق کیا گیا تھا۔



ہوا کچھ یوں تھا کہ 1966 میں جگدیپ فلم ’سرحدی لیٹرا‘ میں بطور کامیڈین کام کر رہے تھے‘ جس میں سلیم خان بھی تھے جب کہ جاوید اختر اسسٹنٹ۔ عکس بندی سے فارغ ہو کر تینوں بیٹھ جاتے اور پھر جاوید اختر، بھوپالی انداز میں چٹکلے سناتے، جو جگدیپ کو بہت پسند آتے۔ اسی گفتگو میں سورما بھوپالی والا انداز بھی زیر بحث آیا۔ یہاں تک کہ جگدیپ اور جاوید اختر کی جب بھی ملاقات ہوتی، دونوں اسی انداز میں بات کرتے جیسے ’شعلے‘ میں سورما بھوپالی کیا کرتے تھے۔

جگدیپ کی خوش قسمتی ہی تھی کہ سلیم خان اور جاوید اختر کی جب جوڑی بنی اور دونوں نے فلموں کی کہانیاں اور سکرین پلے لکھنا شروع کیے، جن کے حصے میں ’شعلے‘ جیسی سپر ڈوپر ہٹ فلم بھی آئی، اور جگدیپ نے ’ سورما بھوپالی‘ کے روپ میں تہلکہ مچا دیا۔ ان یہ کہنا کہ ’ہمارا نام سورما بھوپالی ایسے نہیں ہیں‘ اور ’نجانے کہاں سے آ جاتے ہیں‘ زبان زد عام ہوا۔

جگدیپ جن کا اصلی نام سید اشتیاق احمد جعفری تھا، یوں تو انہوں نے بعد میں کئی فلموں میں کام کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ’ سورما بھوپالی‘ کے خول سے باہر نہ نکل سکے۔ بلکہ کئی اور فلموں میں اداکاری کرتے ہوئے وہ اسی کردار میں جیسے قید نظر آئے۔ خیر اس کردار کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے 80 کی دہائی میں ’ سورما بھوپالی‘ کے نام سے فلم بھی ڈائریکٹ کی لیکن امیتابھ بچن، دھرمیندر، ریکھا جیسے مہمان اداکاروں کی موجودگی میں یہ تخلیق اوسط درجے کا کاروبار ہی کر سکی۔



جگدیپ کی نجی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو وہاں بچپن سے ہی محرومی، غربت، بے چارگی اور مفلسی کے سائے نظر آتے ہیں۔ مدھیہ پردیش سے تعلق تھا، اور والدہ بہتر مستقبل کے لئے ممبئی آئیں، جہاں وہ یتیم خانے میں ملازمت کر کے وہاں کا بچھا کچھا کھانا بیٹے کے لئے لاتیں۔ خواہش تھی بیٹا پڑھے لکھے لیکن جگدیپ ماں کی اس محنت مزدوری کو دیکھ کر صرف نو برس کی عمر میں خود بھی چھوٹے موٹے کام کرنے لگے۔ 1951 میں جب وہ صرف 12 سال کے تھے تو انہیں سڑک کنارے بیٹھا دیکھ کر ہدایتکار بی آر چوپڑہ کے پروڈکشن اسسٹنٹ نے بچوں کے ایک منظر میں تماشائیوں کی جگہ بیٹھنے کی تین روپے کے عوض خدمات حاصل کیں۔

فلم ’افسانہ‘ کے اس ایک منظر میں ٹھیٹ اردو زبان میں مکالمہ ادا کرنا تھا لیکن چائلڈ سٹار ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ یش چوپڑہ جو اس فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے انہوں نے تماشائی بچوں سے دریافت کیا کہ کوئی اس مکالمے کو ادا کر سکتا ہے اور جگدیپ چونکہ اردو زبان سے واقفیت رکھتے تھے انہوں نے فوراً ہاتھ اٹھا دیا۔ یوں وہ پلک جھپکتے میں تماشائیوں سے اٹھ کر سٹیج پر جلوہ افروز ہو گئے۔ اس فلم کے بعد انہوں نے کئی تخلیقات میں بطور چائلڈ سٹار کام کیا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ 1952 میں بچوں کی فلموں کے قومی ایوارڈز کے لئے جن تین فلموں ’اب دلی دور نہیں ہے‘، ’ہم پنچھی ایک ڈال کے‘ اور ’منا‘ کی نامزدگی ہوئی۔ ان تینوں فلموں میں بطور چائلڈ سٹار جگدیپ ہی شامل تھے۔



جگدیپ کے کرئیر میں ہدایتکار بمل رائے کی ’دو بیگھ زمین‘ بھی رہی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ مختلف مزاحیہ کرداروں میں نظر آئے۔ جگدیپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اب ان کی دوسری نسل یعنی جاوید جعفری کے بیٹے میزان جعفری بھی فلموں میں قدم رکھ چکے ہیں۔ 81 برس کے اس کامیڈین نے بے شمار فلموں میں کام کیا لیکن کیسی بدقسمتی ہے کہ کبھی بھی مزاحیہ اداکاری پر انہیں فلم فئیر ایوارڈ کا حقدار نہیں ٹھہرایا گیا۔
مزیدخبریں