برصغیر میں ہمارے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف ہندوؤں کی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت دی بلکہ انہیں اس مقصد کے لئے زمین بھی فراہم کی۔ مغلوں کی تاریخ میں شہنشاہ اورنگزیب سے بڑھ کر اسلام کی خدمت کرنے والا حکمران کوئی نہیں۔ رٹگر یونیورسٹی امریکہ سے تعلق رکھنے والی مورخ Audrey Truschke نے اپنی باکمال تصنیف “Aurangzeb, the man and the myth” میں ایسے تمام مواقع کی ایک فہرست دی ہے جہاں اورنگزیب نے مندروں کی تعمیر کے لئے نہ صرف زمینیں فراہم کیں بلکہ ان کی دیکھ بھال کا خیال بھی رکھا۔ 1687 میں اورنگزیب نے بنارس میں برہمن اور پروہتوں کو عبادتگاہ اور رہائشی مقاصد کے لئے ایک بڑا کمپلیکس تعمیر کرنے کی غرض سے ایک اراضی کا ٹکڑا عین مسجد کے ساتھ عطیہ کیا۔ اس طرح 1691 میں اس نے چترا کوٹ میں منداکنی گنگا دریا کے ساتھ آٹھ دیہات کی اراضی بالا جی کے مندر کے لئے وقف کی جس کی تعمیر کے لئے فنڈز باقاعدہ مغل حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے۔ یہ تمام اراضی جواس مقصد کے لئے دی گئی، اسے لگان سے بھی مستثنیٰ قرار دیا گیا۔
ایسی بے شمار مثالیں شہنشاہ اورنگزیب کی نظر آتی ہیں جہاں ہندو اور جین کمیونٹی کو مندروں کے لئے اور اسی طرح دیگر غیر مسلم طبقات کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لئے نہ صرف زمینیں عطیہ کی گئیں بلکہ مالی معاونت بھی کی گئی۔
اور پھر اسی طرح کے کچھ حقائق سومنات کو تباہ کرنے والے ’بت شکن‘ محمود غزنوی سے بھی وابستہ ہیں۔ بہت سے ہندو سپاہی، پنڈت، مذہبی لوگ اور سنسکرت کے عالم باقاعدہ اس کے ملازم تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے غزنی میں ایک ہندو مندر بھی ان کی عبادت کے لئے بنایا تھا۔ ٹیپو سلطان، شیر میسور، نے بھی اپنی ریاست میں کم و بیش 150 مندروں کی حفاظت اور دیکھ بھال میں باقاعدہ حصہ ڈالا۔ یہاں شہنشاہ اکبر کی مثال بھی دی جا سکتی ہے مگر اکبر ہمارے پارسا مسلمانوں کے یہاں اکثر کافر ہی خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک اورنگزیب، ٹیپو سلطان اور محمود غزنوی کا تعلق ہے تو یہ وہ لوگ ہیں جو سب پکے مسلمان بادشاہ سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت کی۔
ان کے یہ اقدامات بہرحال ایسی نظیر نہیں کہ جنہیں آسانی سےرد کیا جا سکے۔ لہٰذا یہ دلیل کہ اسلامی قانون کی رو سے کسی غیر مسلم کو عبادت گاہ بنانے کی اجازت نہیں، خصوصاً جہاں بت پرستی ہو، تاریخی حوالوں سے قابل قبول نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو ماننا پڑے گا کہ اورنگزیب، محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان اچھے مسلمان نہیں تھے۔
یہ بحث جو محض اس بنیاد پر اٹھائی جاتی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ حالانکہ اس لحاظ سے بھی یہ بحث درست نہیں ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے تو اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی، وہ جگہ جہاں کسی غیر مسلم کے لئے کوئی عبادت گاہ نہیں بنائی جا سکتی وہ صرف اور صرف سرزمین ِ حجاز ہے۔ اس سے باہر کوئی ایسی پابندی نہیں ہے۔ دوسری طرف اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے غیر مذاہب پر مشتمل خود مختار طبقات کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ باقاعدہ معاشرے کا حصہ سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اصل مسئلہ دراصل وہ زبانی جمع خرچ ہے جو مدینہ کی ریاست کے حوالے سے ہمارے موجودہ وزیر اعظم کی طرف سے بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ دوبارہ بنانا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ یہ وہ ریاست تھی جس کا نظم و نسق آنحضرتؐ کی براہ راست نگرانی میں چل رہا تھا۔ اب یہ محض ایک دل کی خواہش ہے جو دراصل ایک دنیاوی ریاست، جو کسی براہ راست الہامی ہدایت سے محروم ہو، محض ایک بوجھ ہے۔ تاہم، جو ہم دنیا دار زیادہ سے زیادہ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک منصفانہ ریاست قائم کر دیں جو سب شہریوں کو مساوی حقوق دے۔
اس سلسلے میں دو طریق کار اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا طریقہ تو امریکی طرز پر ہو سکتا ہے۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم جو وفاقی فنڈز عبادت کی غرض سے خرچ کرنے سے روکتی ہے۔ یعنی امریکہ کی وفاقی حکومت کوئی چرچ، مسجد یا مندر تعمیر نہیں کر سکتی۔ یہ اصول سب کے لئے یکساں ہے اور کسی ایک طبقے کو دوسرے کے مقابلے میں ترجیح نہیں دیتا۔ دوسری طرف اگر پاکستان کو دیکھیں تو یہاں باقاعدہ مساجد اور ان کی دیکھ بھال کے لئے فنڈنگ کی جاتی ہے۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 4، 20 اور 25 کو یکجائی صورت میں دیکھیں تواسی اصول کے تحت ریاست پاکستان صرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ان تمام طبقات کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال اور فنڈنگ کی پابند ہے جن کا ذکر آرٹیکل 260 میں کیا گیا ہے۔ گویا چت بھی میری پٹ بھی میری کا اصول بنا کر معاملات کو چلایا جارہا ہے۔ عملاً کوئی قاعدہ قانون اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کی نسبت ہر لحاظ سے مراعات یافتہ طبقہ ہیں۔ کم از کم ہمیں اس قسم کی بڑھکیں مارنا ہی چھوڑ دینی چاہئیں کہ پاکستان اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور وہ برابر کے شہری ہیں۔ حالانکہ دور دور تک ایسا نظر نہیں آتا۔
یہاں پر اقلیتیں برابر تو کیا بلکہ تیسرے درجے کی شہری ہیں اور وہ بھی بے حیثیت۔ ہاں سکھوں کو راضی رکھنے کی جو کوششیں ہوتی ہیں ان کے پیچھے کچھ اور وجوہات ہیں جن کی تفصیل میں جانا یہاں مناسب نہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ کرتارپور بارڈر راہداری کی تعمیر جو عوام کے پیسوں سے ہوئی اس کے خلاف آوازیں نہیں اٹھیں۔ ان کے ساتھ ہونے والے اس خاص سلوک کے خلاف تو آواز اٹھانا مقصد نہیں بلکہ مقصد تو صرف اتنا ہے کہ باقی تمام اقلیتوں کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک روا رکھا جانا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کے تمام شہریوں کے لئے ایک ہی پیمانہ اور سلوک طے کر لیا جائے۔ جیسا کہ ہم سے 11 اگست کی تقریر میں کھل کر وعدہ کیا گیا تھا۔
اصل بحث کی طرف واپس آتے ہیں۔ موجودہ حکومت اسلام آباد میں یہ مندر محض ہندو شہریوں کی محبت میں تو بنانا نہیں چاہتی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ بھارت کے سامنے ایک علامتی برتری دکھائی جائے۔ اور اس طرح بھارت میں بابری مسجد کی شہادت اور اس پر آئے عدالتی فیصلے کا ایک رنگ میں جواب دیا جائے۔ عمران خان صاحب اس جنون کا شکار ہیں کہ مودی کو دکھایا جائے کہ پاکستان بھارت سے زیادہ انسانی مساوات پر مبنی روادار معاشرہ ہے۔ سچائی بہرحال یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی مذہبی پیشواؤں کے پیچھے چلنے والے مذہبی معاشرے ہیں، جو کہ اپنی ساخت میں ہی عدم برداشت کے حامل ہیں۔ تاہم، ان دونوں معاشروں میں ایک فرق بہرحال ہے۔ پاکستان 1973 کے آئین کے تحت مذہب کے نام پر چلنے والی ایک ریاست ہے۔ جہاں مذہبی پیشواؤں کا کہا ہی حرف آخر ہے۔ لہٰذا عمران خان جتنا بھی خود کو روادار ظاہر کرنے کی کوشش کریں انہیں ان ملاؤں کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف مودی اپنی ذات میں کٹر ہی سہی لیکن بھارت کا سیکولر آئین اس پر ایک سخت نگران کے طور پر موجود ہے۔
غرض کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر محض سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر آپ واقعی مودی کے خلاف برتری چاہتے ہیں تو جناح کی 11 اگست کی تقریر کو اس کی اصل روح کے مطابق یہاں نافذ کر دیں۔ پاکستان میں مذہبی پیشواؤں کا عمل دخل ختم کریں۔ اسی صورت میں ہی پاکستان جو کہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، ایک ہندو اکثریتی ملک بھارت پر اپنی برتری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
یہ تحریر ڈیلی ٹائمز پر انگریزی میں شائع ہوئی جسے عبید اللہ خان ایڈووکیٹ نے نیا دور کے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔