میرے نزدیک یہ خبر انسانیت کی بقاء کے حوالے سے دنیا کی آج تک کی سب سے بڑی خبر ہے۔ کیونکہ انسانی تاریخ اس تلخ حقیقت کی گواہ ہے کہ ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک ”مذہب“ کے نام پر سب سے زیادہ بیگناہوں کا خون بہایا گیا ہے جو دنیا کے کسی بھی مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ دنیا کے ہر مذہب نے قتل و غارت گری اور تشدّد کی مخالفت کی ہے اور دوسرے مذاہب کے احترام کی تعلیم دی ہے۔ اگر ہم دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے بانیوں اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو ہمیں ہر جگہ باہمی رواداری، عدم تشدّد اور عفو درگذر کا سبق ملتا ہے۔
ہمارے پیارے نبی اکرمؐ نہ صرف اپنے اوپر گندگی پھینکنے والی عورت کی بیماری کی خبر سن کر اس کی تیمارداری کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے اور سفرِ طائف میں مخالفین کے پتھروں سے لہو لہان ہونے کے باوجود ان کے حق میں ہدائت کی دُعا کی بلکہ فتحِ مکّہ کے موقع پر اپنے بدترین جانی دشمنوں ابوسفیان اور حکیم بن احزام کے گھروں کو خانہ کعبہ کے ساتھ جائے پناہ و معافی قرار دے دیا۔ اسی طرح میثاقِ مدینہ دو مذاہب کے درمیان دنیا کا وہ پہلا بقائے باہمی و اخّوت کا معاہدہ ہے جس کے تحت مسلمانوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پابند بنایا گیا۔
حضرت عیسیٰ ؑ کا وہ قول تو ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر کوئی تمہارے داہنے گال پر چپت رسید کرے تو بدلہ لینے کی بجائے تم اپنا بایا ں گال بھی اس کے آگے کردو۔ اسی طرح ہندو دھرم کے بانی رام چند رجی نے محض اس لئے اپنی حکومت اپنے سوتیلے بھائی بھرت کی خاطر چھوڑ دی اور چودہ سال کے لئے بن باس لے لیا کیونکہ انکی سوتیلی والدہ کیکئی سے ان کے والد راجہ دسرتھ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کی دو خواہشیں پوری کرے گا۔
جب کیکئی نے اپنے بیٹے بھرت کے لئے رام کی جانشینی کی تنسیخ اور چودہ سال کے لئیے بن باس کی خواہش ظاہر کی تو راجہ نے اسے ماننے سے انکار کردیا مگر رام نے یہ گوارا نہ کیا کہ ان کا باپ عہد شکنی کرے اور انکی سوتیلی ماں کا دل توڑے۔ مگر جس طرح آج ”رام راج“ کے لئیے مسجدیں اور گرجے توڑے جا رہے ہیں، جس طرح یہودی مذہبی انتہا پرستی یا صیہونیت کے نام پر مظلوم فلسطینیوں کے معصوم بچوں کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے اور نظامِ مصطفےٰ ؐکے نام پر مسلمان ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں وہ نہ صرف اپنے سیاسی، قومی اور ذاتی مفادات کے لیے مذہبی تعلیمات کا مذاق اُڑا نے کے مترادف ہے بلکہ یہ تقسیم ہر مذہب میں گروہی، مسلکی اور فرقہ وارانہ سطح تک پھیل گئی ہے جو بنی نوعِ انسان کی بقاء کے لیے بذاتِ خود سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
ایسے عالم میں ہر اس کوشش کو خیر مقدم کرنا چاہیے جو انسانوں کے درمیان محبت، رواداری اور بقائے باہمی کو فروغ دے۔ جب تمام مذاہب کے لوگ ایک ہی خدا یعنی ربّ العالمین کو اپنا پروردگار ماننے اور اسی کی طرف لوٹ جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ تو وہ ایک ہی جگہ پر عبادت کیوں نہیں کرسکتے۔ اور ایک ہی جگہ پر انکی آخری رسومات ادا کیوں نہیں ہو سکتیں؟کیونکہ جس ربّ کے پاس انہیں واپس جانا ہے وہاں بخشش کا دارومدار اعمال پر ہے اس لیے کہ کسی مذہب میں بھی انسان کی پیدائش میں اسکی مرضی کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہماری چوائس ہمارے اعمال پر ہے۔ جوا نسان دوسرے انسانوں سے محبت کرتے ہیں وہی خدا کے محبوب بندے ہوتے ہیں۔ مومن کا مطلب امن قائم کرنے والا ہے۔ جو تخلیقِ آدم ؑ کی غرض و غائت ہے۔ ایسی ہی ایک مثال امریکہ میں بوسٹن کے مرکزی علاقے میں واقع تاریخی کیتھیڈرل چرچ آف سینٹ پال کے نیک بندوں نے قائم کی ہے۔ جہاں بیس سال سے مسلمان بھی اس چرچ میں جمعہ کی نماز باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ ہی انسانیت کے محسن اور خدا کے حقیقی فرمان بردار ہیں۔ میں نے کئی سال پہلے اپنی کتاب ”عشق سلامت“ میں ایسے ہی خدا کے آنگن کے بارے میں دعا کی تھی جس کا عنوان تھا ”ربّ دا ویہڑہ“؎
آؤ یارو رَل مِل کے ہُن ویہڑہ اک سجائیے
اس ویہڑے وچ ہر مذہب دا معید اک بنائیے
ناں رکھیئے فرِ اس ویہڑے دا”سب دے ربّ دا ویہڑہ“
تے اس ویہڑے نوں جاون لئی رکھیئے اِکو رستہ
ربّ دے گھر نوں جاون والے اس ویہڑے توں لنگھن
آندیاں جاندیاں ربّ دے سبھ بندیاں لئی خیراں منگن
ویہڑے دے وچ سارے اپنے ربّ دی کرن عبادت
نہ کوئی دھرم دا جھگڑا ہووے، نہ کوئی قتل و غارت
اگرچہ آج یہ رب کا آنگن ( ہاؤس آف ون) ایک چھوٹی سی عمارت ہے لیکن بقول رولینڈ اسٹولٹ ”یہ خیال عمارت سے بہت بڑا ہے“ جو انسانی معاشرے کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے۔