سابق جسٹس جاوید اقبال کی ہراسانی کا معاملہ اور کیا گل کھلائے گا؟ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے

سابق جسٹس جاوید اقبال کی ہراسانی کا معاملہ اور کیا گل کھلائے گا؟ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے
زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیار کا حصول ہر انسان کی فطری خواہش ہے۔ معاشرے کے ایک معمولی فرد سے لے کر کسی چھوٹے بڑے ادارے کے سربراہ یا حتیٰ کہ ملک کے سربراہ تک اختیار کی ہوس کی بنیادی نفسیات ایک ہی ہے۔ فرق صرف چونچ کے سائز کا ہے۔

طاقت اپنے ساتھ بے شمار (جائز و ناجائز کے فرق سے بالا) مراعات اور استحقاق لے کر آتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے کمزور معاشروں میں جہاں ریاست بنیادی انسانی حقوق کے معاملے میں تقریباً ناکام ہو چکی ہو۔ ریاست کی طاقت کے تمام سرچشمے ایک دوسرے کی کمزوریوں پر نظریں جمائے ہر وقت ایک رساکشی کی سی صورتحال کا شکار ہوں۔

اختیارات کی یہ طوائف الملوکی طاقتور فرد کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیتی ہے۔ اب یہ فرد پر منحصر ہے کہ اس کا دلچسپی کا علاقہ کیا ہے؟ دولت کا حصول، مزید طاقت کی جستجو، اپنے اندر چھپی نفسانی خواہشات کی تکمیل یا ایک مکمل پیکج کی صورت میں یہ سب کچھ

ایسی ریاستوں کی تاریخ (محمد شاہ رنگیلا کو شرمانے والے) جنرل یحییٰ اور جنرل رانی جیسے کرداروں سے بھری رہتی ہے۔ ہر دور میں یہ کردار مختلف ناموں سے نمودار ہوتے ہیں۔

دارالخلافہ کے ایلیٹ کلب، کافی شاپس اور شہر کے نواح میں بڑے بڑے فارم ہاؤسز میں ہونے والی پارٹیاں چھوٹے بڑے بااختیار رنگیلوں اور انواع واقسام کی سماجی تتلیوں سے بھرے رہتے ہیں۔ یہ تتلیاں رنگیلوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے ان کی کمزوریوں اور خواہشات کے مطابق اپنا روپ دھار لیتی ہیں۔

آج کل تعویذ دھاگے، جنات اور موکل ٹاپ ٹرینڈ میں ہیں۔ محنت کم کنٹرول زیادہ اور نتیجہ آؤٹ سٹینڈنگ۔ خواہ رنگیلا بظاہر مغرب سے تعلیم یافتہ اور اچھی انگریزی ہی کیوں نہ بولتا ہو۔

کچھ عرصہ پہلے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران جب نیب کے رنگیلے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ایک صحافی کے ساتھ ملاقات کے دوران حکومت کے خلاف اپنے ارادوں کا اظہار کیا تو فوراً ہی ان کا ویڈیو سکینڈل نمودار ہو گیا (جو ایک ایسے چینل سے نشر کیا گیا جس کا مالک اس وقت وزیراعظم عمران خان کا مشیر تھا۔ انتہائی چالاکی سے اس سے استعفیٰ لیا گیا اور اس کے چینل پر چل چکے ڈرامے اور پروگرام اسٹیٹ چینل نے کروڑوں میں خرید کر چلانے شروع کر دیے، یعنی رنگیلے کی رنگ بازی، اس نے کونسا جیب سے دینے تھے۔

ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو اپنی نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے خلاف فوراً ایکشن لیا جاتا لیکن ناصرف ان کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا گیا بلکہ معجزاتی طور پر (شاید کسی جناتی اثر میں) ان کو تمام حکومتی سکینڈل نظر آنے بند ہوگئے اور اپوزیشن کا بال بھی کھال نظر آنے لگا۔

اپوزیشن بہت بلبلائی لیکن اس وقت ریاست کے تمام جنات اور موکل عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد تو یہ معاملہ جیسے رفع دفع ہوتے ہوئے نظر آیا۔ یوں لگا کہ جیسے یہ کسی سماجی تتلی کی کارستانی ہے لیکن وقت کے ساتھ چیزیں مزید کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق لاپتہ افراد کی فیملیز کی عورتیں بھی جسٹس جاوید اقبال کی جنسی ہراسانی کا شکار ہو چکی ہیں کیونکہ حضرت لاپتہ افراد کے کمیشن کے صدر بھی ہیں۔

یہ معاملہ اب اور ہی صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔ طیبہ فاروق کے مطابق انہیں ان کے شوہر کے ہمراہ تقریباً ڈیڑھ مہینہ وزیراعظم ہاؤس میں نظر بند رکھا گیا، جو ویڈیو انہوں نے انصاف کے حصول کے لیے بنائی تھی ریاست کے سب سے بڑے رنگیلے نے دوسرے رنگیلے کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کر لی یعنی رنگیلے کو ملے رنگیلا کر کر لمبے ہاتھ۔ یہ معاملہ اور کتنے گل کھلائے گا؟ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔

ہمارے بااختیار حلقوں کو شدید ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان چھوٹا ملک نہیں ہے۔ یہ کروڑوں بھوکے اور مفلس عوام کا ملک ہے جن کی آئندہ نسلیں غذائی قلت کا شکار ہیں اور ان کی فلاح وبہبود (غیر نصابی اور غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث) ریاست کی ترجیحات میں تقریباً ناپید ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ایسے معاشروں اور ریاستوں کا انجام ایسا ہے جو ہم شاید سوچنا بھی نہیں چاہتے۔

مصنف پاکستان ٹیلی وژن میں تقریباً 9 سال بطور پروڈیوسر کام کر چکے ہیں، اس کے علاوہ ان کا تعلق ’اجوکا تھیٹر‘ سے بھی ہے جن کے ساتھ یہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی تھیٹر فیسٹیولز میں بطور ایکٹر اینڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر پرفارم کر چکے ہیں- آج کل امریکہ میں مقیم ہیں۔