وزیر اعظم کو یہ بات کس نے بتائی، اس کا تو علم نہیں لیکن پیر ہی کی صبح مستند سائنسی جریدے میں چھپنے والی دو تحقیقی رپورٹس نے ان کے اس دعوے کو باطل کر دیا۔ یاد رہے کہ ان رپورٹس کے علاوہ بھی نیوزی لینڈ حکومت نے سخت ترین لاک ڈاؤن کر کے کرونا وائرس کو اپنے ملک سے مکمل طور پر ختم کرنے کی خوشخبری دو روز قبل ہی سنا دی ہے۔
اب آتے ہیں ان تحقیقاتی رپورٹس کی جانب جو وزیر اعظم کے دعوے کی واضح طور پر نفی کرتی ہیں۔
لاک ڈاؤن کے باعث امریکہ میں 6 کروڑ اور چین میں 28.5 کروڑ لوگ کورونا وائرس سے بچ گئے۔ پیر کے روز Nature میں شائع ہونے والی ایک تحقیق یہ شماریات سامنے لے کر آئی ہے۔ ایک اور تحقیق جو اس کے ساتھ ہی اسی میگزین میں شائع ہوئی، وہ لندن کے امپیریئل کالج میں کی گئی تھی جس کے مطابق لاک ڈاؤن نے یورپ کے 11 ممالک میں کل 31 لاکھ لوگوں کی جانیں بچائیں، جن میں سے 5 لاکھ برطانیہ میں ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق لاک ڈاؤنز کی بدولت کرونا کے کیسز کم رکھنے میں بڑی مدد ملی اور جتنی تعداد میں لوگوں کے اس وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ تھا، اس سے 82 فیصد کم لوگ اس کا نشانہ بنے۔
پیر کے روز Nature میں ایک ساتھ شائع ہونے والی دونوں تحقیقیں مکمل طور پر مختلف طریقہ کار اپناتی ہیں لیکن دونوں کے نتائج بالکل ایک جیسے ہیں۔ ان کے مطابق لاک ڈاؤنز کی وجہ سے معیشت کو کچھ نقصان ہوا ہے لیکن یہ وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کو سست کرنے میں خاصے کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔
برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ڈائریکٹر برائے عالمی پالیسی لیبارٹری سولومن ہسیانگ کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے بغیر ہم انتہائی مختلف قسم کے اپریل اور مئی کا سامنا کرتے۔ سولومن اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ تھے جس نے جائزہ لیا کہ چھ ممالک جن میں چین، امریکہ، فرانس، اٹلی، ایران اور جنوبی کوریا شامل ہیں، نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا حکمتِ عملی اپنائی۔ ان کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچے کہ لاک ڈاؤنز سے قبل وائرس کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد روزانہ پچھلے روز سے دگنی ہو جاتی تھی۔ رپورٹرز کے ساتھ ایک کانفرنس کال میں سولومن کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر لاک ڈاؤن کی پالیسیوں نے اس وبا سے بڑی تعداد میں انسانی جانوں کو بچا لیا۔
تاہم، رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کچھ ایسے علاقوں میں جہاں کرونا کی وبا ابتدا میں شدید ترین تھی اب وہاں اس کے پھیلاؤ کی رفتار میں سست روی دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن یہ ابھی ختم قطعاً نہیں ہوا ہے۔ آج بھی دنیا کی ایک بڑی تعداد اس وائرس کا نشانہ بن سکتی ہے۔ ابھی تک جن ممالک پر تحقیق کی گئی ہے، ان کی کل آبادی کا صرف 3 سے 4 فیصد ہی ان کا نشانہ بنا ہے۔ سمیر بھٹ جو کہ اس ٹیم میں شامل ایک محقق ہیں بتاتے ہیں کہ یہ وبا کی محض شروعات ہے اور ابھی ہم herd immunity سے بہت دور ہیں۔ اگر تمام حفاظتی طور طریقے اور اقدامات چھوڑ دیے گئے تو اس کی دوسری لہر کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان محققین کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤنز کے بغیر ان چھ ممالک میں ٹیسٹ کیے جانے کے بعد مصدقہ کیسز کی تعداد میں 6 کروڑ 20 لاکھ کا اضافہ متوقع تھا، اور یاد رہے کہ یہ صرف مصدقہ کیسز کی تعداد ہے، تحقیق کے مطابق زیادہ تر افراد اپنا ٹیسٹ کرواتے ہی نہیں۔ اگر اصل تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تعاد 53 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ اور یہ صرف چھ ممالک کے اوپر کی گئی تحقیق ہے۔ محققین کے مطابق امریکہ میں مصدقہ کیسز کی کل تعداد 48 لاکھ زیادہ ہو سکتی تھی اور غیر مصدقہ کیسز کی تعداد 6 کروڑ تک ہو سکتی تھی۔
لیکن دوسری جانب ہمارے وزیر اعظم ہیں جن کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا لہٰذا اس طرف جانا تو ناممکن ہے۔ چند روز قبل خبریں گردش کر رہی تھیں کہ حکومت عید کے بعد دوبارہ سے لاک ڈاؤن کرنے پر غور کر رہی ہے لیکن وزیر اعظم کے اس بیان نے یہ امید بھی ختم کر دی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن 13 مئی کو کھولا گیا تھا جس کے بعد عوام کی بڑی تعداد نے مارکیٹوں کا رخ کیا تھا اور یہی وہ موقع تھا کہ جب ملک میں کرونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا۔ اسی دوران 15 مئی کو محکمہ صحت پنجاب نے ایک رپورٹ بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوائی جس کے مطابق صرف لاہور شہر میں کرونا مریضوں کی اصل تعداد 6 لاکھ 70 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔ لیکن حکومت اس رپورٹ کو دبائے بیٹھی رہی اور یہ یکم جون کو لیک ہوئی لیکن حکومت نے اس پر کوئی وضاحت پیش کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
غریبوں کے نام پر امیروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے کھولے گئے لاک ڈاؤن کے دوران ملک میں کرونا کے کیسز کی رفتار میں اتنی تیزی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ لیکن 14 مئی سے اب تک 70 ہزار سے زائد نئے کیسز سامنے آ چکے ہیں اور اس وقت ملک میں کل کیسز کی تعداد 1 لاکھ 6 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، عوام کی زندگیاں بچانے والا لاک ڈاؤن اب دوبارہ نہیں لگے گا۔