انہوں نے لکھا کہ اس کورونا کی رام لیلا کا آغاز پانچ روز پہلے ہوا جب وہ حسبِ معمول صبح اٹھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''اسٹڈی روم کا باہر والا دروازہ کھولا کہ صبح کی صاف اور ٹھنڈی ہوا سے من کی آلودگی کوصاف کروں۔ ہلکا سا زکام تھا، یہ معمول کی بات ہے صبح صبح مجھے زکام ہوتا ہے، سورج اوپر چڑھتا ہے تو غائب ہو جاتا ہے مگر اس دن سے آج تک زکام، فلو اور پھر لگاتار چھینکیں۔ ساتھ ہی ساتھ گلے اور سر میں درد بھی محسوس ہونے لگا۔ پہلے تو مجھے یوں لگا کہ یہ سب وہم ہے، یہ بھی محسوس ہوا کہ کورونا جیسی علامات ضرور ہوں مگر کورونا مجھے کہاں ہوگا، میں تو بہت احتیاط کر رہا ہوں مگر اسی شام ٹیسٹ کروایا تو پتا چلا کہ میں بھی گرفتارِ بلا ہو چکا ہوں اس کے بعد تھرما میٹر کا پارہ کبھی 100اور کبھی 99کو پہنچتا ہے کبھی نارمل ہو جاتا ہے۔"
وہ بتاتے ہیں کہ سر درد البتہ مستقل ہے۔ پانچ روز سے قرنطینہ میں ہوں، روز اپنا حساب کرتا ہوں، اپنے گناہوں کے ڈھیر کو دیکھتا ہوں تو خوفزدہ ہو جاتا ہوں اور اگر حضرت سلطان باہو کی طرح خدا کی عنایات کو دیکھتا ہوں جو بےپایاں اور بےشمار ہیں تو دل مطمئن ہو جاتا ہے۔
انہوں نے جذباتی انداز میں لکھا کہ جونہی کورونا ٹیسٹ مثبت آیا میں نے آنکھیں بند کرکے سوچا سامان سو برس کا تھا خبر پل کی بھی نہیں۔ کیا کیا ارادے تھے۔ وہ کتاب لکھنی ہے، نوٹس تیار ہیں، مناسب وقت کا انتظار تھا، روم کو دیکھنا ہے۔ اہرامِ مصر اور عجائباتِ فراعنہ کا نظارہ کرنا ہے۔ بہت دنیا گھوم لی مگر حوروں اور پریوں کے دیس سنٹرل ایشیا کے بہت سے ممالک کی سیر کرنا ابھی باقی ہے۔ ہزاروں خواہشیں باقی ہیں۔
میں کورونا سے بچوں یا اس کا شکار ہو جائوں، انسانیت اور انسان کی کوششوں پر میرا یقین کامل ہے۔ صدیوں سے انسان کائنات کو مسخر کرتا آیا ہے، کورونا پر بھی قابو پا لے گا۔ میں کورونا کا شکار ہو بھی جائوں، میری آنے والی نسلیں ضرور اس کا مداوا کر لیں گی۔ ہر آنے والے دور میں انسان نے کائنات کو اپنے لئےسازگار بنانے کی کوشش کی ہے، پہلے یہی انسان جانوروں سے ڈرتا تھا اب سب جانور اس سے ڈرتے ہیں
۔ ہزاروں سال پہلے سے آج تک ملیریا، تپ دق اور طاعون بستیاں کی بستیاں مٹاتی رہیں مگر بالآخر حضرت انسان نے ان کا تریاق ڈھونڈھ لیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس کام میں دیر ہو سکتی ہے مگر اندھیر ہرگز نہیں۔میں کورونا سے بچوں یا اس کا شکار ہو جائوں، انسانیت اور انسان کی کوششوں پر میرا یقین کامل ہے۔ صدیوں سے انسان کائنات کو مسخر کرتا آیا ہے، کورونا پر بھی قابو پا لے گا۔ میں کورونا کا شکار ہو بھی جائوں، میری آنے والی نسلیں ضرور اس کا مداوا کر لیں گی۔
ہر آنے والے دور میں انسان نے کائنات کو اپنے لئےسازگار بنانے کی کوشش کی ہے، پہلے یہی انسان جانوروں سے ڈرتا تھا اب سب جانور اس سے ڈرتے ہیں۔ ہزاروں سال پہلے سے آج تک ملیریا، تپ دق اور طاعون بستیاں کی بستیاں مٹاتی رہیں مگر بالآخر حضرت انسان نے ان کا تریاق ڈھونڈھ لیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس کام میں دیر ہو سکتی ہے مگر اندھیر ہرگز نہیں۔