وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے دو سال: ایک کے بعد ایک چیلنج اور کارکردگی صفر

01:12 PM, 9 Jun, 2020

نبیہ شاہد
 

 

تحریک انصاف کی حکومت اپنے دو سال پورے کرنے میں صرف دو ماہ کی مدت کی دوری پر ہے ۔اس حکومت کے لیے یہ گزشتہ دو سال کسی رولر کوسٹر رائیڈ سے کم نہیں، یعنی ایک بحران ختم ہوتا نہیں تھاکہ دوسراجنم لیتا  تھا، بحران در بحران آنے اور  ان سے نہ نمٹنے کے پیچھے حکومت کی عدم یکسوئی ، فیصلہ سازی کا  فقدان اور غلط ترجیحات کارفرما ہیں۔

آغاز میں ہی جس معاشی بحران نے ملک کو شکنجے میں لے لیا تھا اس پر ابھی بھی مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ روزاول سے حکومت نے ملکی مسائل اور بحرانوں کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو قرار دیکر اپنی ساری توانائی اپوزیشن اور سیاسی حریفوں کیخلاف احتساب کیلئے صرف کی ۔ حکومت کے بقول معاشی بحران اس لیے ہوا کیونکہ سابقہ حکومتوں نے لندن میں ایون فیلڈ میں فلیٹس لیے ،منی لانڑرنگ کی ، مے فیئر میں فلیٹس لیے اور اکتس ہزار ارب ڈالر کے قرضے لیے جس کو بھرتے بھرتے پاکستان کی معیشت  میں بہتری نہیں آ پائی۔ اس موقف سے حکومت کو تاحال توکچھ حاصل نہیں ہوسکا الٹا حکومتی کیمپ سے سامنے آنے والی کرپشن اور بدعنوانی کی داستانوں نے نہ صرف حکومتی بیانیے کو کمزور کر دیا ہے  بلکہ حکومت پر سیاسی انتقام کے الزامات کو تقویت بھی دی ہے

بدقسمتی سے اس وقت بھی حکومت اسی پرانی کہانی پر گامزن ہے اور اسی کو بیچنا چاہتی ہے۔ملک میں کورونا کی وبا بے قابو ہوچکی ہےمتاثرین اور اموات کی تعداد تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ریکارڈ چار ہزار نئے کورونا کیسز رپورٹ ہوچکے  ہے اور اب تک پاکستان میں پچاسی  ہزار دو سوچونسٹھ افراد متاثرہوچکے  ہیں جاں بحق افراد کی تعداد سترہ سو کے قریب آن پہنچی ہے۔

کورونا کے واحد حل لاک ڈاون کا نام و نشان نہیں رہا ہے۔ شہرقائد کراچی کو کورونا وبا کا مرکز سمجھا جارہا ہے۔جہاں کے ڈاکٹروں کے مطابق اس وقت شہر میں لاکھوں کورونا متاثرین ہیں۔ کراچی میں بتیس ہزار نو سو دس کیسز اب تک سامنے آچکے ہیں۔

پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں 15 مئی کوجاری ہونے والے حکومتی سروے کے مطابق تقریبا ساڑے چھ لاکھ لوگوں میں کورونا سے متاثر ہیں ۔ لہذا  تیس دن کے سخت لاک ڈاون کی ضرورت ہے ۔

یہ وبا ملک کے سیاسی رہنماوں اور اہم شخصیات کو بھی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے دو روز  قبل سندھ کے صوبائی وزیر مرتضی بلوچ کورونا سے جاں بحق ہوئے جبکہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے رکن شوکت چیمہ اور خیبرپختونخواہ اسمبلی کے رکن میاں جمشید کاکا خیل جاں بحق ہوگئے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما مولانا بخش چانڈیو،کشمیر کمیٹی کے چیرمین شہریار آفریدی اوربلوچستان کے وزیر کھیل عبدالخالق ہزارہ بھی کورونا وائرس سے لڑرہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی ختم کرنے کے دعوے بھی بہت کیے جاتے ہیں لیکن عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آرہے۔

حکومت نے پیٹرولیم منصوعات کی قیمتیں ضرور کم کیں لیکن پٹرول پمپوں سے پٹرول ہی غائب ہوگیا اورعوام کو ضروری اشیاء کی قیمتوں میں رتی برابر بھی کمی نہ دکھائی دی۔  جس پر وزیراعظم عمران خان نوٹس لینے پر بھی مجبورہوگئے ہیں۔

ابھی حکومت معیشت اور کورونا کے چیلینجز سے نبرد آزما ہے لیکن ساتھ ہی ایک اور چیلینج آن کھڑا ہوگیا۔ ٹڈی دل کا مسئلہ، جس نے ملک کے تقریبا ساٹھ سے زائد اضلاع میں کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا ہے۔ وفاقی وزیر خوراک فخر امام کے مطابق ٹڈی دل کے مزید جھنڈ رواں اور  آئندہ ماہ میں افریقہ سے پاکستان پہنچیں گےجو مزید فصلوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔  بدقسمتی سے یہ مسئلہ ملک میں خوراک کے بحران کا باعث بن سکتا ہے ۔

سب سے بڑی خبر جس پر سب آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں وہ ہے  شہبازشریف کی ممکنہ گرفتاری، نیب کے چھاپے، لاہور ہائیکورٹ سے ان کی ضمانت اور حکومتی وزراءاور نمائندوں کی جانب سے اپوزیشن لیڈر سے متعلق سیاسی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ۔

دو روز قبل نیب نے شہبازشریف کو پکڑنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ نیب کو چکمہ دینے کے بعد کل لاہور ہائیکورٹ میں نمودار ہوئے اور 17 جون تک کی عبوری ضمانت لی جس کا مطلب نیب کو اب شہبازشریف پر ہاتھ ڈالنے کیلئے مزید انتظار کرنا ہوگاجبکہ حکومت شہبازشریف سے متعلق ان تمام معاملات کو قانون کی چارہ جوئی قرار دے رہی ہےاور قانون کا سامنا نہ کرنے پرانہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنارہی ہے۔

لیکن مسلم لیگ ن کے بقول یہ کارروائیاں چئیرمین نیب کو بلیک میل کرکے اور چینی بحران میں سامنے آنے والے حکومتی کرداروں سے توجہ ہٹانے کیلئے کی جارہی ہیں ، حکومت اس طرح کی کارروائیوں میں بذات خود ملوث ہے یا نہیں  یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا

لیکن زمینی حقائق ،ماضی کے اقدامات، حکومتی وزرا، مشیروں، معاونین کے دعوے اور پیش گوئیاں اس تاثر کو تقویت ہی دے رہے ہیں کہ حکومت ایک بار پھر اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے نیب ٹارزن بن رہا ہے۔

سیاسی پنڈتوں کے بقول حکومتی نمائندوں کی جانب سے اپوزیشن کیخلاف ہونے والی  کارروائیوں سے نیب کی کارکردگی پر سوال کھڑے ہورہے ہیں اور حکومت کے تانے بانے جوڑنے میں مددگار بھی ثابت ہوتی ہیں جس کا پورا پورا فائدہ اپوزیشن اور شہبازشریف کی اہمیت میں اضافے کا رول ادا کرتی ہے۔

اپوزیشن کے اس موقف میں بھی یقیناً وزن ہے کہ جب شوگر بحران میں ملوث کرداروں میں حکومتی کردار سامنے آئےتو حکومت نے ایک بار پھر اپوزیشن کی طرف رخ کرلیا اور اس معاملے سے توجہ  ہٹانے کی بھرپور کوشش کی

کل شہبازشریف تھے آج وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہیں جن کوجعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب نے طلب کیا تھا۔

کیا کورونا سے متعلق غیر واضح پالیسی اور اقدامات ، معیشت کو درپیش چیلنجز اور حکومتی ٹیم پر لگنے والے الزامات سے توجہ ہٹانے کیلئے حکومت نے اپوزیشن سے نیا محاز کھول لیا ہے؟ کیا حکومت  کورونا سے لڑنے میں کامیاب ہوگی؟ اس وبا سے لڑنے کا اور عوام کو ریلیف دینے کا  واحد طریقہ قومی یکجہتی ہے. جب تک ہماری وفاق اور صوبائی حکومتیں ایک پیج پر نہیں آجاتی ہیں تب تک پاکستان کے آگے پڑھنے کی امید کم دکھائی دے رہی ہے۔
مزیدخبریں