پاکستان میں معاشی ترقی کے ادارے پائیڈ کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ تمباکونوشی سے اموات اور بیماریوں سے ملک کو ہر سال 615 ارب سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔اس رقم کا 71 فیصد صرف سرطان، امراض قلب اور پھیپڑوں کی بیماریوں پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ رقم سگریٹ کمپنیوں سے حاصل کردہ ٹیکس سے بھی 5 گنا زیادہ ہے۔
ایک تحقیقی مطالعہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جنوبی ایشین خطے میں پاکستان میں سگریٹ کی قیمتیں سب سے سستی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر اداروں کا کہنا ہے کہ ایسے نقصانات کا تدارک کرنے کا بہترین طریقہ سگریٹ کی قمیت میں اضافہ ہے، یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا میں سستا ترین سگریٹ بیچنے والا ملک ہے۔ سگریٹ کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے روزانہ ہزاروں بچے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ذیادہ تر بچے تو اسے اپنے جیب خرچ سے ہی خرید لیتے ہیں۔ حکومت نے 2017 میں ایک کم لاگت والے برانڈ 20 سگریٹ کے پیکٹ کی مقرر کردہ کم سے کم قیمت خرید صرف 47.38 روپے رکھی تھی، جو 2019 میں بڑھا کر صرف 62.75 روپے کردی گئی تھی۔ 2020 جولائی کے بجٹ میں بھی تمباکو کے ٹیکس پچھلے سال کی طرح ہی رہے۔
یعنی کہ ہمارے ہاں موت تو بہت سستی ہے لیکن زندگی اتنی ہی مہنگی۔ تمباکونوشی کے عادی غریب طبقے سے وابستہ افراد 60 روپے کی موت تو بآسانی خرید لیتے ہیں جبکہ اس کے باعث کینسر جیسے مہلک اور مہنگے مرض سے لڑ نہیں پاتے کیونکہ اس کا علاج اتنا مہنگا ہوتا ہے عام آدمی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شوکت خانم ہسپتال کی ویب سائٹ پر بتائی گئی تفصیلات کے مطابق اس کے ایک سال کے علاج کا لگ بھگ خرچہ کچھ اس طرح ہوتا ہے؛
سرجری پر 3،00،000روپے، ریڈی ایشن کیلئے 1،25،000روپے، کیموتھراپی کیلئے 1،50،000روپے جبکہ کل لاگت تقریبا 10،75،000 روپے تک آتی ہے۔ اب کہاں 60 روپے کا کینسر اور کہاں یہ 10،75،000روپے کی نئی زندگی۔
حکومت کو چاہیے کہ سگریٹ کی قیمتوں کو کم از کم ہمسایہ ممالک کے برابر تو لیکر آئیں۔ جیسا کہ بھارت میں اس کی قیمت خرید 39۔4 ڈالر ہے، جبکہ چائنہ میں 13۔3 ڈالر ہے اور ان کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے کم صرف 58۔1 ڈالر ہے۔
اگر سگریٹ کی قیمت بڑھا دی جائے تو اس سے کیا فائدہ ہوگا ؟
سگریٹ کی قیمت میں 10 فیصد اضافے سے فوری طور پر5 فیصد تمباکو نوشی میں کمی ہوگی ، اگر مہنگائی کے تناسب سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے تو 10 فیصد تمباکو نوشی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق سگریٹ مہنگی کرنے سے سب سےزیادہ نوجوان تمباکو نوشی ترک کرتے ہیں ۔ نوجوانوں میں یہ رجحان بوڑھے افراد سے 2 گنا ہے۔ سگریٹ نوشوں میں 10 فیصد کمی کا مطلب پاکستانی معیشت کو 60 ارب روپے سالانہ کی بچت جبکہ 16 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے گا۔ بہت سے ممالک نے سگریٹ کی قیمت میں 70 سے 80 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔
پالیسی ساز سگریٹ مافیا کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں ۔ پاکستان میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران سگریٹ پر ایکسائز ٹیکس میں ایک فیصد بھی اضافہ نا ہو سکا۔ پاکستان میں سگریٹ پر ایکسائز ٹیکس 2016 میں جو 25۔2 تھا اس سے بھی مزید کم ہوکر 88۔0 پر آ پہنچا ہے۔ جس کے باعث جنوبی ایشین خطے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں سگریٹ کی قیمت سب سے کم ہیں۔
اب وقت ہے درست فیصلے کا، حکومت سیگریٹ کی قیمت بڑھائے اور جوانوں کی زندگیاں بچائے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب جس طرح آپ کینسر کیخلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، اسی طرح سگریٹ مافیا کیخلاف بھی کارروائی کا حکمنامہ جاری کر کے آپ لاکھوں جانیں بچا سکتے ہیں۔ ان موت کے سوداگروں اور بین الاقوامی مافیا کو لگام آپ ہی ڈال سکتے ہیں ۔ اس مافیاکوپاکستان کی معیشت اور عوام کی جان سے کھیلنے نا دیا جائے۔ بچوں کو تمباکو کے استعمال سے بچائیں، سگریٹ پر ایف ای ڈی میں کم از کم 30 فیصد اضافہ کریں۔ ان کی قوت خرید سے باہر ہونے کے لئے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ بہت ضروری ہے۔
پاکستان کو تمباکو کنٹرول کے سخت اقدامات کی ضرورت ہے، پاکستان نے پہلے ہی تمباکو کنٹرول سے متعلق ڈبلیو ایچ او کے فریم ورک کنونشن پر دستخط کردیئے ہیں اور اس کے بعد سے متعدد ٹیکس عائد کرنے کی پالیسیاں متعارف کرائی گئی ہیں جن میں سگریٹ کے پیک پر عکاسی انتباہ؛ تمباکو نوشی پر پابندی؛ عوامی مقامات اور گاڑیوں میں ' سگریٹ نوشی نہیں' نابالغوں کو سگریٹ بیچنے ، فعال اشتہاری مہم اور مفت نمونوں کی تقسیم پر پابندی عائد شامل ہیں۔ تاہم پالیسیوں کا نفاذ عام طور پر کمزور ہوتا ہے اور یہ خدشات پیدا کرتے ہیں کہ پاکستان میں 2025 تک تقریبا 3 کروڑ30 لاکھ افراد تمباکو نوشی کرتے ہونگے۔
اب یہ فیصلہ آپ کا وزیراعظم عمران خان؛ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں یا پاکستانی نوجوان کی جان؟؟؟