گذشتہ سماعت پر ایمان مزاری ایڈووکیٹ کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ میں والدہ شیریں مزاری کے اغوا کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں تھی، اس وجہ سے انہوں نے فوجی قیادت کے خلاف متنازع الفاظ استعمال کئے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع جیگ اور وفاق کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ ایمان مزاری ایڈووکیٹ کی جانب سے اس بیان بازی پر شرمندہ ہونے کا جواز بنایا گیا، جو اس کیس کے ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا۔
خیال رہے کہ فوج کی قانونی برانچ جیگ برانچ نے ایمان مزاری ایڈووکیٹ کیخلاف پاک فوج کی قیادت قیادت کے خلاف متنازع بیان دینے پر کیس درج کروا رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے آج اس کیس کو ختم کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے جیگ برانچ کے وکیل سے پوچھا گیا کہ پٹیشنر کے بیان کے بعد اس مقدمے میں کیا رہ جاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ کوئی جرم نہیں بنتا۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ درخواست دہندہ کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے بیان میں جس شرمندگی کا اظہار کیا گیا، وہ اس کیس کی تفتیش میں پیشرفت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ اس موقع پر کیس کے خاتمے کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا خلاف قانون ہوگا۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے خلاف درج کیس کی رپورٹ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تفتیش کے مرحلے پر کسی مقدمے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بی بی سی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمان مزاری نے پاک فوج کی قیادت پر الزامات لگائے اور یہ اقدام جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔