پاکستان کے کنگ میکرز نے ہر طرح کے شخص کو ملک پر سوار کرنے کا تجربہ کر لیا ہے اور شاید آگے بھی کریں گے اور کر رہے ہیں مگر تقریباً ہر بار یوں ہوا کہ کنگ بننے والے نے مالکوں کے خلاف عَلم تو بلند کیا مگر قافلہ اکٹھا نہ ہو سکا۔ ماضی کی بے تحاشا مثالیں آپ کو تاریخ کی کتب سے مل جائیں گی مگر حال میں یہ برا حال عمران خان نیازی کا ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا؛ 'اگر تم کسی کی پیٹھ پر سوار ہو تو اس کے بال مت نوچو'۔ خان صاحب نے بھی ماضی کے پروجیکٹس کی طرح اس بات پر عمل نہیں کیا اور منہ کی کھانی پڑی۔ شاید پاکستان میں وزیر اعظم کی کرسی میں ہی کوئی خرابی ہے، جو بھی بیٹھتا ہے وہ بٹھانے والوں کو ہی سیدھا ہو جاتا ہے اور پھر یہ بے رحم تاریخ گواہ ہے کہ وہ کرسی کسی بھی کنگ کو اپنی مدت سے پہلے ہی ذلیل و خوار کر کے رخصت کر دیتی ہے۔
اس وقت عمران خان کی حالت یہ ہے کہ 'گلیاں ہو جانڑں سُنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے' مگر خان صاحب کو اس پر اظہار حیرانگی بالکل نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ وہ تمام لوگ جو جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھ کر عمرانی کشتی میں جس کنگ میکر کے کہنے پر سوار ہوئے تھے وہ تمام دوبارہ اسی جہاز میں سوار ہیں اور وہی کنگ میکرز ہیں جو اب نیا پروجیکٹ لانچ کرنے جا رہے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان اس وقت جس سختی کا سامنا کر رہے ہیں اس کا پودا انہی کے ہاتھوں سے لگوایا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان آئے روز قوم کو آرمی چیف کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتے تھے۔ جب وہ باجوہ صاحب کو قوم کا باپ گردانتے تھے۔ جب وہ آرمی چیف کو جمہوریت کا چیمپئن اور اپنا رہبر اعلیٰ تسلیم کرتے تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب عمران خان نے بطور چیف ایگزیکٹو آف دی کنٹری ایجنسیوں کو یہ کہا تھا کہ وہ فون کالز ٹیپ کریں، میری بھی ٹیپ کریں، یہ آپ کا حق ہے۔
کیسی دلچسب بات ہے آج جس پرائیویسی لیک ہونے کو انسانی بنیادی حقوق کی پامالی گردانا جا رہا ہے اس کی اجازت کنگ میکرز نے اپنے بے بی عمران نیازی ہی سے دلوائی تھی۔ آج جن ملٹری کورٹس اور آرمی کے خلاف بیان بازی سمیت دیگر معاملات کو غداری کہا جا رہا ہے اور مقدمات کی پاداش میں سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ قوانین بھی کنگ میکرز نے اپنے ہاتھوں لانچ ہونے والے بے بی عمران نیازی سے پاس کروائے تھے۔ آرمی کی توہین پر سالوں کی قید، جرمانے اور غداری کے سرٹیفکیٹ بھی عمران نیازی کے ذریعے بانٹے گئے اور آج وہ خود اس کی گرفت میں ہیں۔ عمرانیہ حکومت میں کوئی سول ادارہ ایسا نہیں بچا تھا جہاں حاضر سروس یا ریٹائرڈ وردی والا سربراہ نہ ہو۔
آج عمران نیازی عالمی میڈیا پر لگاتار پاکستانی اداروں کی توہین کر رہے ہیں جن کو ماضی میں وہ ملک کیلئے مسیحا اور اپنے لئے مالک و آقا کا درجہ دیے ہوئے تھے۔ موجودہ حکومت بھی جس ڈگر پر چل نکلی ہے مستقبل میں ان کا حال بھی عمران نیازی سے مختلف نظر نہیں آتا۔ ماضی کی حکومت نے جس طرح سے جعلی مقدمات اور نیب کے بے دریغ غلط استعمال سے اپوزیشن کو سالوں اذیت دی تھی موجودہ حکومت بھی اس وقت انتقام کی آگ میں جل رہی ہے اور جو فیصلے کر رہی ہے چاہے وہ ملٹری کورٹس سے متعلق ہوں یا ہزاروں افراد کو جیلوں میں رکھنے والے ہوں، سب پچھلے دور کا تسلسل ہیں۔
سماجی و سیاسی کارکنان ہوں یا صحافی، ان پر ہونے والا تشدد اور ان کے خلاف دائر ہونے والے مقدمات انتہائی مذمت کے قابل ہیں۔ گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے معروف نام عمران ریاض خان لاپتہ ہے۔ اعلیٰ عدلیہ مسلسل اداروں اور حکومت سے ان کی بازیابی سے متعلق پوچھ رہی ہے مگر مجال ہے کہ عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے نے اب تک واضح طور پر محض یہی بتا دیا ہو کہ عمران ریاض بخیر و عافیت ہیں بھی یا نہیں۔ عمران ریاض کا کردار یقیناً قابل اختلاف رہا ہے۔ انہوں نے صحافت کو جس طرح بدنام کیا وہ اپنے آپ میں ایک الگ بحث ضرور ہے۔ یقیناً بہت سے جید صحافی اب عمران ریاض کو صحافی ماننے کو بھی تیار نہیں مگر اس سب کے باوجود کسی بھی انسان کی یوں گمشدگی اور اس کی آواز بند کرنے کا یہ طریقہ قابل مذمت ہے۔
اختلاف اور مخالفت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ بات حکومت، اپوزیشن اور اداروں سمیت سب کو سمجھ لینی چاہئیے کہ اختلاف ضرور کیجئے مگر مخالفت سے باز رہیں کیونکہ اختلاف کا حق اگر آئین پاکستان ہمیں دیتا ہے تو مخالفت و نفرت سے باز رہنے کو بھی کہتا ہے۔
پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جماعتیں اس وقت برسر اقتدار ہیں، صاحب اختیار ہیں اور شاید یہ بات نظر انداز کر رہی ہیں کہ زیادہ پرانی بات نہیں صرف ایک سال پہلے تک وہ لوگ جن پر آج ظلم ہو رہا ہے وہ صاحب اقتدار تھے اور موجودہ اربابِ اختیار زیر عتاب تھے۔ سیاست دانوں کو اپنی بقا چاہئیے تو پروجیکٹ بننا بند کریں اور عوامی سیاست پر توجہ دیں۔ نسل در نسل آپ کی جیل کاٹنے کی کہانیاں جدوجہد میں شمار نہیں ہوں گی۔