ہٹلر دادا سے گفتگو کرتے ہوئے آفتاب اقبال کے پروگرام کی ٹیم کے سابق ممبر پروفیسر باغی نے کہا کہ زوال کے دنوں میں یہ ہوتا ہے کہ بھانڈ مسخرے سوسائٹی کے آئیکون بن جاتے ہیں۔
پروفیسر باغی سے سوال کیا گیا کہ مزاحیہ سیاسی پروگراموں میں جگتوں پر زیادہ فوکس کیوں کیا جاتا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کوئی لطیف نکتہ بتائیں، کوئی حکایت بیان کریں، کوئی اچھا شعر سنائیں، کوئی اچھا لطیفہ ہی سنا دیں۔ یہ توجہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ راہ چلتے چلتے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیں کہ میں سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لوں گا۔ یہ بدتہذیبی ہے اور یہ دماغی خلل ہے۔ اس لیے ہمارے دوستوں سے توقع نہ رکھیں کہ وہ غالب کے لطیف نکات بیان کریں گے۔
ہٹلر دادا نے پروفیسر باغی سے پوچھا کہ پروگرام کے کپتان (اینکر) کے ہاتھ میں کتنا ہوتا ہے یہ فیصلہ کرنے میں کہ کس پر کتنا کیمرہ رکھنا ہے اور کیا کتنا دکھانا ہے؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر باغی نے بتایا کہ اصل رول تو اسی (اینکر) کا ہے۔ یہاں آفتاب اقبال کا نام لیے بغیر پروفیسر باغی نے کہا کہ یہ شو لائیو نہیں ہوتا، ریکارڈ ہوتا ہے اور یہ ٹیبل پر بنتا ہے، ٹیبل پر جس کی انگلی ڈیلیٹ پر ہے، وہ جس کا مرضی رول ڈیلیٹ کرتا جائے۔ اور یہ شو لوگوں کو ہنسانے کے لئے بنتا ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگوں کو ہنسانا ہی کیوں اتنا ضروری ہے۔
پرفیسر باغی نے آفتاب اقبال کے شو کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ شو کیا اور اس سے ملتے جلتے شو کیا، سب ایک ہی ہیں۔ لیکن، اس شو کی بات اس لیے ہو رہی ہے کہ یہ ہر چینل پر مقبول شو رہا ہے۔ ان پرگراموں کا معاشرے کو کیا فائدہ ہوا، سب آپ کے سامنے ہے۔ گھٹیہ مزاح جس سے لوگ اجتناب کرتے تھے وہ عام ہوا ہے۔
ہٹلر دادا نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر باغی سے پوچھا کہ مزاحیہ سیاسی پروگراموں کے اینکرز کے بارے میں یہ عام ہے کہ ان کے پاس بڑا علم، تحقیق، معلومات اور دانش ہے۔ حقیقت میں ایسا ہے یا صرف باتیں بنی ہوئی ہیں۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر باغی نے ایک بار پھر آفتاب اقبال کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ سارے اینکر ہمارے دوست ہیں اور جن کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ( آفتاب اقبال) ہمارے خصوصی دوست ہیں۔ میرے تو بہت ہی قریبی ہیں گورنمنٹ کالج میں میرے سینئر ہیں اور ان سے تعلق کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انہوں نے زندگی گزاری ہے اور مزید بھی گزار رہے ہیں۔ اگر آپ اخلاقی اقدار کو قربان کر کے مزاح پیدا کر رہے ہیں تو یہ بھاری قیمت ہے۔
پروفیسر باغی نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ یہ اینکر بھی ان کرکٹرز کی طرح ہیں جو محلے سے کرکٹ کھیلتے کھیلتے آگے آ جاتے ہیں اور اچانک ان کے سامنے ڈالرز کی ڈھیری لگا دی جائے اور ان سے کہا جائے کہ دو نوبال کرنے ہیں تو وہ کہے گا کہ ٹھیک ہے، اسے یہ نہیں پتا کہ 22 کروڑ لوگ تمہارے اوپر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ تم آؤٹ کرو گے، تم خود آؤٹ ہو کہ باہر آ جاتے ہو۔
پروفیسر باغی نے اس موقع پر ن-م راشد کا شعر سناتے ہوئے کہا کہ:
"آپ" ہم جس کے قصیدہ خواں ہیں
وصل البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں
"آپ" ہم مرثیہ خواں ہیں جس کے
ہجر البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں
"آپ" دو چہروں کی ناگن کے سوا اور نہیں!
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے پروفیسر باغی نے کہا کہ یہ دوہرے میعار کے لوگ ہیں۔ اور پھر خانے بنا رکھے ہیں کہ یہ میری پرائیویٹ لائف ہے یہ پبلک لائف ہے اور یہ کوئی لائف نہیں ہے۔ یہ سب بکواس ہے۔ یہ بیچارے عام سے للو پنجو ہیں جن کو آپ بہت اہم شخصیات بنا کے بیٹھے ہیں، علم ہمارے اینکروں کا ریسرچ ٹیمیں ہیں۔
پروفیسر باغی نے مزید کیا کہا مزید سنیے اس ویڈیو میں:
https://www.youtube.com/watch?v=uqWCp1qH8wc&feature=youtu.be