میں چونیاں میں مقیم ایک 22 سالہ غریب محنت کش تھا جو اپنا پسینہ بہا کر گھر کا چولہا جلاتا تھا۔ سب ٹھیک ہی چل رہا تھا۔ ' ٹھیک ہی' سے مراد ہتک آمیز لقب سے پکارے جانا، مجھ پر کچھ خاص اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔ چونکہ یہ سب معمول تھا۔ لہذا مجھے یہ سب سہنے کی جیسے عادت سی ہو چکی تھی۔ پھر 25 فروری 2020 کا سورج طلوع ہوا۔ کسے خبر تھی کہ یہ دن میرے بیہمانہ قتل کا پیغام لے کر نمودارہوا ہے۔ وہ دن بھی بالکل عام دنوں جیسا ہی تھا۔ سب معمول کے مطابق تھا۔ بہار کی آمد آمد تھی۔ ہوا کی راگنی پر پیڑ پودے جھوم جھوم کر خوشگوار موسم کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ بھی دیدنی تھی۔ نہر میں بہتا پانی بھی اپنی مستی میں رواں دواں تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنے اطوار نہیں بدلے تھے۔ مجھے کوئی عندیہ نہ دیا گیا۔ سو میں اپنے انجام سے بے خبر روزی روٹی کمانے کی فکر میں گھر سے نکل پڑا۔ چونکہ میرا شمار ان چند خوش نصیبوں میں نہیں جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں، لہذا جسمانی مشقت ہی میرا واحد ذریعہ معاش تھا۔
میں بھوسے کے ٹرک سے بھوسہ اتارنے کی مزدوری کر کے اپنے خاندان کی کفالت میں حصہ ڈالتا تھا۔ اس بدقسمت دن بھی میں صبع پانچ بجے بھوسے کا ٹرک لاہور اتروا کر اپنے گاؤں واپس پہنچا تھا کہ اچانک میرے دل میں گھر کے پاس کھیتوں میں نصب ٹیوب ویل میں نہانے کا خیال امڈ آیا۔ مجھے رتی برابر بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ معصوم خواہش میرے اذیت ناک قتل کا سبب بنے گی۔ پانی میں اترنے کی دیر تھی کی یکایک دو افراد جن کا تعلق گاؤں کے بااثر اور زمیندار گھرانے سے تھا شدید غضب میں میری جانب بڑھتے دکھائی دیے۔ دولت اور رتبے کا ایسا خمار تھا کہ انھوں نے بنا کچھ پوچھے مجھے لاتوں، مکوں اور گھونسوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔
ان کا کہنا تھا میرے وجود سے ان کے ٹیوب ویل کا پانی پلید ہو گیا ہے۔ پانچ سے سات منٹ ان کے تشدد اور نازیبا الفاظ سہنے کے بعد مجھے محسوس ہوا میرے اس 'جرم' کی زیادہ سے زیادہ 'سزا' یہی ہو سکتی تھی۔ اب تنبیہہ کر کے میری جان خلاصی کر دی جائے گی۔ مگر میں غلط تھا۔ ان دو میں سے ایک شخص نے اپنی قمیض کی جیب سے موبائل فون نکالا اور مختصر سی بات کر کے فون واپس جیب میں ڈال لیا۔ چند لمحوں بعد تین اور افراد ٹیوب ویل پر آ پہنچے۔ ان کے چہروں پر حیوانیت اور ہاتھوں میں لوہے کے راڈ اور زنجیریں تھیں۔ یہ منظر انتہائی خوف ناک تھا۔ میں جان چکا تھا کہ اب میں زندہ گھر نہیں جاؤں گا اور اگر خوش قسمتی سے زندہ بچ بھی گیا تو معذوری میرا کبھی ساتھ نہیں چھوڑے گی۔
وہ پانچوں افراد مجھے گھسیٹتے ہوے اپنے ڈیرے پر لے گے اور ایک بار پھر سے مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ میں اپنے ہوش و ہواس میں یہ ظلم و جبر برداشت کر رہا تھا کہ ان میں سے ایک شخص نے پوری قوت سے زنجیر گھما کر میری گردن پر دے ماری جس کے بعد میں زمین پر گر پڑا اور پھر جو ہوا میں وہ دیکھ نہ سکا۔ مجھے محض آوازیں سنائی دیتی رہیں اور وہ میرے نیم مردہ جسم پر غصہ اتارتے رہے۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں اپنے گھر میں اپنی چارپائی پر پڑا تھا۔ میرے جسم کے ایک ایک عضو پر اس سفاکی کی داستان کندہ تھی۔ میرے جسم کی تمام ہڈیاں تقریباً ٹوٹ چکی تھیں۔ اس لمحے میرے ذہن میں خیال آیا اگر میں مر گیا ہوتا تو اس اذیت سے آزاد ہوتا۔ میں دو دن اس ناقابل بیان کرب میں رہا اور بالآخر جنرل ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
میں تو ذات پات کی بھینٹ چڑھ گیا مگر میرا بیہمانہ قتل بہت سے لوگوں کے لیے معاشی فوائد اور سیاست چمکانے کی نوید بن کر نمودار ہوا۔ اب اقلیتوں کے 'حقوق' کے لیے کام کرنے والی این جی اوز میرے نام پر ڈالر، پاؤنڈ سے اپنے بینک اکاؤنٹس میں خاطر خواہ اضافہ کریں گی۔ ہمارے تمام سیاسی نمائندے ایک ایک بار میرے خستہ مکان پر حاضری دیں گے۔ میرے لواحقین کو تسلی دینے اور اپنے مختصر دورے کے آخر میں اجتماعی دعا کروا کر پھر کبھی نہ پلٹیں گے۔ ہاں شاید انتخابات سے قبل کسی کارنر میٹنگ میں مجھ پر اور میرے گھرانے پر کیے 'احسانات' جتائے جایں تاکہ مسیحی عوام کی حمایت حاصل ہو سکے۔ میرے اس بہیمانہ قتل میں جہاں وہ پانچ درندے قصور وار ہیں، وہیں ایسے عناصر بھی برابر کے حصےدار ہیں۔
کاش ذات پات اور نفرت کی بنیاد پر قتل ہونے والا میں آخری مظلوم ہوں۔