جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خلیل الرحمان قمر ایک لا ابالی شخص ہیں وہ غلطی پہ ہیں۔ موصوف نے کامیاب ہونے کیلئے بہت پاپڑ بیلے۔ جو کبھی یہ دعویٰ کرتے بھی پائے گئے تھے کہ وہ راجہ گدھ کو باوضو ہو کر پڑھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا طوطی بولتا تھا۔ اور یہ بھی متمنی تھے کہ انہیں ایک ڈرامہ نگار کے طور پہ پی ٹی وی میں کہیں جگہ مل جائے۔
وہ اب کیسا لکھتے ہیں اور کیا لکھتے ہیں، یقین کیجئے میں کچھ نہیں جانتا۔ کیونکہ نہ میں نے ان کی کوئی فلم دیکھی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی ڈرامہ۔ ہاں حال ہی میں ایک ٹی وی پروگرام میں اداکارہ ریشم نے ان کا لکھا ہوا ڈائیلاگ سنایا۔ جو ان کے ماضی قریب میں مقبول ہوئے ڈرامے سے تھا۔ ’’کیا آپ اس دو ٹکے کی عورت کے لئے پچاس ملین دینے جا رہے تھے؟‘‘ یہ سن کر میرے کان کھڑے ہوئے کہ یہ تو مشہور زمانہ فلم Indecent Proposal سے ہے۔ آپ میں سے بہت سوں نے یہ فلم یقیناً دیکھی ہوگی۔ مگر وہ فلم تو سرمایہ دارانہ نظام پر ایک گہرا طنز تھا کہ جس میں انسان کو بھی سرمائے کی طرح بکنا پڑتا ہے۔ وہ عورت کی بے حسی یا لالچ پہ بنی فلم نہیں تھی۔
مجھے یاد پڑتا ہے وی۔ایس نیپال نے اپنی کتاب India میں کچھ بالی وڈ کے کہانی نگاروں کا تذکرہ کیا تھا کہ کیسے وہ ہالی وڈ کی فلموں کا چربہ تیار کرتے ہیں اور ایک ہی رات میں وہ نئی فلم کے لئے کہانی تیار کر لیتے ہیں۔ میں نے وہ کتاب ادھوری چھوڑ دی تھی کیونکہ مصنف کا تعصب ہر سطر سے جھلکتا تھا۔ مگر وہاں کے کہانی نگاروں کا چربہ کرنے کا دستور ابھی تک قائم ہے۔
تخلیق جان جوکھوں کا کام ہے۔ اور اسے قبول عام بنانا اور بھی مشکل۔ مگر یہ صاحب تو اپنی شاعری کے متعلق بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں الہام ہوتا ہے۔
حال ہی کی ان کی عورت مارچ پہ آہ و بکا بھی ان کی کسی تمنا کی عکاسی کرتی ہے۔ ممکن ہے وہ اب سیاست میں نام پیدا کرنا چاہتے ہوں۔ ہونے کو یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب پدرسری نظام کا سنا تو خلیل الرحمان قمر اور سینٹر مشاہد اللہ خان کے تاثرات اور پدر سری نظام کے متعلق علم کی نوعیت ایک جیسی تھی۔ ان دونوں کو ایسا لگا کہ یہ عورتیں اپنے باپ کے بھی خلاف ہیں۔ اس فہم پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے۔
عورت مارچ دراصل غیر اساسی (non-essential) سے اساسی (essential) ہونے کا سفر ہے۔ عورت کی شخصیت مرد کی شخصیت سے یکسر مختلف ہے۔ لیکن مرد نے ہمیشہ اسے ایک باندی ہی سمجھا ہے۔ یہ کہنے کی باتیں ہیں کہ اسے مختلف مذاہب میں اعلیٰ انسانی حقوق دیے گئے ہیں۔ اسرائیل کی بسوں یا مالز کی یہ روز مرہ کی داستانیں ہیں کہ کس طرح رابائی آ کر عورتوں کے لباس پہ اعتراض کر کے ان کے منہ پہ تھوکتے ہیں یا ان کے منہ پہ کالک پھینکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے قصے تو آپ سبھی جانتے ہیں۔
مغرب میں بھی عورت ایک شے ہے۔ پچھلے دنوں وہاں پہ چلی metoo# مہم کا تو آپ نے سنا ہوگا۔ اور جس طرح اشتہارات میں اس کے جسم کی نمائش ہوتی ہے۔
کلاسیکی ادب کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی عورت ایک ثانوی کردار کی حامل ہے۔ شیکسپئیر کے دو تین المیے جو میں نے پڑھے تو اس میں بھی عورت یا تو گونگی ہے کہ یہی اس کی معراج تھی یا پھر چالاک اور دھوکہ باز ہے۔
انیسویں صدی کے دو بڑے ناول اینا کرینینا اور مادام بواری کے متعلق تو آپ جانتے ہیں کہ جنہیں انسانی تاریخ کے بڑے مصنیفین نے لکھا۔
اٹھارہویں صدی کی دو نامور خواتین جین آسٹن اور جارج ایلیٹ (حالانکہ اس کو بھی اپنا نام میری ایون سے بدل کر مردانہ نام رکھنا پڑا) نے بہرحال عورت کو اس کی شخصیت کے سیاق وسباق میں دیکھنے کی کوشش کی۔
اردو ادب میں میری نزدیک ایک راجندر سنگھ بیدی ہے جو عورت کی کتھا کو سمجھ سکا ہے۔
جیسا پہلے عرض کیا جا چکا کہ عورت بالکل مختلف شخصیت کی حامل ہے۔ بچپن کے بعد اس میں بہت سی جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اور ان تبدیلیوں کا اس کی شخصیت پہ گہرا اثر پڑتا ہے۔ پدرسری معاشرے میں اسے اپنے آپ کو ارد گرد کو اپنانے کے لئے کئی جتن کرنے پڑتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ اسے بہت سے کردار نبھانے پڑتے ہیں اور پھر پچاس کے پیٹے میں اسے ایک اور جسمانی تبدیلی سے گزرنا ہوتا ہے۔ اور اس جسمانی تبدیلی کو تو میلان کنڈیرا نے شناخت کا نام دیا ہے۔
نئی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ شخصیت سازی میں ہماری جنسی fantasies کا بہت عمل دخل ہوتا ہے اور عورت کی fantasies ہم مردوں سے کہیں مختلف ہوتی ہیں۔ عورت کی fantasies میں لطافت زیادہ ہوتی ہے جبکہ زیادہ تر مرد جارحیت کی fantasies رکھتے ہیں۔
پھر orgasm کا مرد ذرہ بھی نہیں جانتے۔ اور یہیں سے عورت کی راہیں مرد سے بہت دور ہو جاتی ہیں۔
ہاں آپ بھلا یہ کب مانیں گے کہ ہم نے عورت کو باندی ہی سمجھا ہے۔ اسے جو آپ نے عزت و توقیر دی ہے اسے وہ ہی جان سکتی ہے۔ میرے دوست اللہ بخش جو بلوچی کے نامور شاعر ہیں نے جب اپنی نظم ’زندگی‘ سنائی تو میں رو پڑا تھا۔
’’اب تو زندگی یوں ہو گئی کہ جیسے کاری کی ہوئی عورت‘‘۔ کیا آہ و بکا کرنے والے اس بات کو سمجھ پائیں گے؟ یا مشاہد اللہ خان اس کو بھی باپ کے خلاف بغاوت سمجھیں گے۔