سال کے تیسرے مہینے میں بہار کے موسم کی خوبصورتی تقریبا اپنی پوری جوبن پر ہوتی ہے۔ بے شمار ست رنگی پھول اور ان کی مسحورکن خوشبوئیں ماحول میں ایک نکھار کا باعث بنتی ہیں۔لیکن یہ چار سورنگوں کی بہار گزشتہ کچھ سالوں سے ہم مرد لوگوں پر کافی بھاری ثابت ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم مرد لوگ قدرت کے عطا کردہ اس موسم سے اس طرح سے لطف اندوز نہیں ہو پارہے جس طرح سال کے باقی گیارہ مہینوں کو کرتے آتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ موسم سال کے اس مہینے میں آتا ہے جب خواتین نامی ایک صنف اپنے عالمی دن کی مناسبت سے مردوں کے رنگوں میں بھنگ ڈالتے ہوئے مختلف شہروں میں ایسی تقریبات کا انعقاد کرتیں ہیں جہاں حقوق نامی مالا کی تسبیح پڑھائی جاتی ہیں۔
ایسے خوبصورت موسم کو مردوں کے لئے شام غربا میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوششیں کرتیں کچھ مادر پدر آزاد خواتین کو جانے کیا شوق چراتا کہ وہ بے سروپا انداز میں شوروٖغل مچا کر اپنے مخالف صنف سے سماجی انصاف اور مساوی سلوک کا تقا ضا کرتیں ہیں۔ خم ٹھونک کر مردوں کو للکارتی خواتین بھول جاتی ہیں ان کا یہ شوروغل اس پدرسری معاشرے کی کان میں جوں نہ رینگے گی۔ اگر آواز زیادہ بلند بھی کر لی جائے تو اسے اس رجعائیت پسند معاشرے میں صوتی آلودگی کا باعث سمجھا جائے گا۔ کیونکہ خواتین کے یہ ہتکھنڈے دراصل مردوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں جو ان کو برسوں برس کے سب اچھا چل رہا ہے والے قدامت پسند معاشرے نے بطور تمغہ عطا کی ہیں۔ پیدائشی تمغہ یافتہ مردوں کے خلاف دن دیھاڑے میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے برساتی عورتوں کو کون سمجھائے کہ دو وقت کی روٹی اور چھت فراہم کرنے کے بعد مرد خواتین کے وجود اور تقدیر کے فیصلوں کا سو فیصد حق دار بن جاتا ہے۔ مردوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اپنے لئے برابری کی عزت اورحقوق کا استحصال نہ کرنے کی بھیگ مانگتی خواتین جانے یہ کیوں سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مردوں کو ان کے جسموں اور ذہینوں پر مکمل اجارہ داری حاصل ہے۔ ان سب کے باوجود اگرطبل جنگ بجاتی خواتین عریانیت سے بھرپور معاشی خود مختاری کے علاوہ صحت، تعلیم اور نظام عدل جیسے شعبوں میں خود کفیلی کے مطالبے کررہی ہیں تو ایسے مطالبے مردوں کو اپنے منہ پر تمانچوں کے مانند نہ لگیں تو کیا لگیں گے۔
آخر برسہا برس کے ضابطہ حیات کو زیر کرنے میں محو عمل ان خواتین کو اپنے جسم پر خود مختاری کا حق دیا ہی کس نے ہے، کیا وہ بھول گئی ہیں ان کا ایسا مطالبہ قدامت پسند معاشرے کے چلتے ریت ورواج جیسے کم عمری کی شادی، زبردستی کی شادی، گھریلو تشدد، نفسیاتی تشدد، اندرون و بیرون ملک سمگلنگ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ کیا خواتین نامی جنس عقل سے اتنی پیدل ہو گئی ہے کہ عوامی مقامات پر اپنے جسموں پر نگاہیں گاڑے اور ہاتھ چلاتے خود لزتی میں مشغول مردوں سے روزگار یا تفریح کے مقام تک یکساں رسائی کا حق مانگ کر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کررہی ہیں۔ جانے ان دو دو ٹکے کی عورتیں کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ بھی اصیل مردوں کی ہی شرافت ہے کہ وہ چوکوں، چوراہوں میں اپنے خلاف لکھے اور بولے جانے والے نازیبا کلمات کو برداشت کررہے ہیں ورنہ خلیل الرحمن قمر اور اوریا مقبول جان جیسے اصیل مردوں کی ہرگز کمی نہیں جو فورا مردانگی پر اتر اتے ہیں۔
امید ہے خواتین کی عورت مارچ کے ذریعے ہم مردوں کے انفرادی اور اجتمائی حقوق سلب کرنے کے عزائم ناکامیابی سے ہمکنار ہوں گے اور اگر خدانخوستہ کامیاب بھی ہوجائیں تو یہ تو طے ہے کہ ہم مردوں کو اثر نہیں ہوگا پر تھوڑا بہت درد ضرور ہوگا۔