گزشتہ ہفتے وہاڑی میں ایک عوامی جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے سوال کیا تھا کہ کیا یورپی یونین نے مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھارت سے سوال کیا تھا۔
وزیر اعظم اپنی تقریر کے دوران یورپی یونین کے 23 سفرا کے لکھے گئے خط کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ روس کے یوکرین پر حملے کے اقدامات کی مذمت میں ان کے ساتھ شامل ہو اور اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے آواز اٹھائے۔
اس خط پر اعتراض کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ہم نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اس کے بعد سفرا کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات میں ہم نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، کیونکہ یہ وہ طریقہ کار نہیں ہے جس طرح سے سفارت کاری کی جانی چاہیے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حالیہ تقریر میں یورپی یونین کے خلاف عوامی طور پر ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا، وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یورپی یونین کے سفرا کو ان کے غیر سفارتی بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس میں پاکستان سے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے کو کہا گیا تھا۔
شوکت ترین نے کہا کہ وزیراعظم نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ میں سے کسی نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کیے یا اس کے غیر قانونی اقدامات پر اعتراض کیا ہے؟ وزیر اعظم نے یورپی یونین کے نمائندوں سے پوچھا، کیا ہم غلام ہیں کہ آپ کی مرضی کے مطابق کام کریں۔
وزیر اعظم کے یورپی یونین کے ممالک کے اقدام پر تبصرے سے پاکستان کی تجارت پر منفی اثر پڑنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ یورپی ممالک ہمارے ساتھ کیا کریں گے'۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ یورپی یونین کے نمائندوں نے پاکستان کو ایک خط بھیجا تھا جس میں اس سے روس کے خلاف ووٹ دینے کا کہا گیا تھا، جس پر ہمارے وزیر اعظم نے صرف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین، بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر خاموش رہا اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صرف ووٹنگ سے گریز کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے صرف عوامی جلسے میں اس پر اپنا ردعمل دیا جو شاید نہیں ہونا چاہیے تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ یورپی یونین کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پاکستان کیا کرے اور یہ وزیراعظم کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اپنے ملک اور اس کے وقار کو کس طرح محفوظ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک آزاد خارجہ پالیسی ہے جس کے مطابق کوئی بھی ملک دوسرے کی خود مختاری کی خلاف ورزی نہ کرے اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صرف وہی بات کی جو ضروری تھی۔