دونوں تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیان میں کہا ہے کہ میڈیا کو ڈکٹیشن پرعمل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اشتہارات کا بطور آلہ کار استعمال قابل مذمت ہے جو آزادی صحافت کو واضح طور پر محدود کرنے کے مترادف ہے۔
اے پی این ایس کی جانب سے اس نوعیت کے اقدامات کو اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے جو ناصرف غیر آئینی ہیں بلکہ جمہوری اقدار کی سنگین خلاف ورزی بھی ہیں۔
اے پی این ایس نے اپنے ایک بیان میں کہا، یہ پالیسی آمرانہ طرز حکومت کی عکاسی کرتی ہے اور آئین کی شق 19 کی خلاف ورزی ہے جو آزادی صحافت کی ضمانت دیتی ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے واضح طور پر آزادی صحافت کی یقین دہانی کروائی تھی اور اب حکومت مسلسل اس قسم کے اقدامات کر رہی ہیں جن میں اشتہارات پر پابندی کو بطور ایک آلہ کار استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ اختلافی آوازوں کو خاموش کروا کر پریس کو قابو کیا جا سکے۔
دوسری جانب پی بی اے نے کہا ہے، یہ ماضی کے ہتھکنڈے تھے لیکن نئے پاکستان میں ہمیں نئے سنگ میل عبور ہونے کی امید تھی جو پوری نہیں ہو سکی۔
دونوں تنظیموں نے وزیراعظم عمران خان سے درخواست کی کہ وزارت اطلاعات کو ڈان میڈیا کے سرکاری اشتہارات پر عائد پابندی فوری طور پر ختم کرنے کی ہدایت کی جائے۔