اس بات کا انکشاف جلاوطنی اختیار کرنے والے ویغور افراد کی طرف سے قائم کردہ ’ ورلڈ ویغور کانگریس‘ نے جرمنی میں موجود اپنے صدر دفتر سے کیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ داڑھی بڑھانے، حجاب پہننے، نمازیں پڑھنے، روزہ رکھنے اور شراب نوشی کی مخالفت کرنے کو انتہاپسندی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
’ ورلڈ ویغور کانگریس‘ کے نمائندے، ریکسٹ کا کہنا ہے کہ چین بھر میں ویغور طالب علموں کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سکولوں کی کینٹین میں ہفتے میں کم سے کم تین بار دوپہر کے کھانے کیلئے پیش ہوں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں طالب علموں، اُن کے اساتذہ اور والدین کو سزائیں دی جائیں گی یا پھر اُنہیں تربیتی مراکز میں دوبارہ داخل کر دیا جائے گا۔
ریکسٹ کہتے ہیں کہ اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ مزید افراد کو روزہ رکھنے کی صورت میں ان حراستی مراکز میں لے جایا جائے گا جہاں اُن کو اپنے نظریات بدلنے کی تربیت دی جائے گی۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان، گینگ شوینگ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حراستی مراکز کے بجائے پیشہ ورانہ اور تعلیمی تربیت کے مراکز ہیں جنہیں انتہا پسندی کو روکنے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اقدامات چینی قانون کے اندر رہتے ہوئے اختیار کئے جا رہے ہیں جن کی تائید چین میں موجود تمام نسلی گروپ کرتے ہیں اور جن کے مثبت سماجی اثرات مرتب ہو رہے ہیں